Maktaba Wahhabi

386 - 368
‘ بمعنی۔ ‘‘[1] ’’ ’مَشْورۃ‘بھی ’شوری‘ کے معنی میں ہے۔ اسی طرح لفظ’مَشُوْرَۃ‘ شین کے ضمہ کے ساتھ بھی مروی ہے۔ عرب کہتے ہیں : شاورتہ فی الأمر و استشرتہ یعنی باب مفاعلہ اور استفعال سے یہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘ امام ابن فارس رحمہ اللہ متوفی ۳۹۵ھ لکھتے ہیں : ’’(شور)الشین والواو والراء أصلان مطردان‘ الأول منھما إبداء شیء وإظھارہ وعرضہ والآخر أخذ شیء۔ فالأول قولھم:شرت الدابۃ شوراً‘ إذا عرضتھا۔ والمکان الذی یعرض فیہ الدواب ھو المشوار۔ ۔ ۔ والباب الآخر: قولھم: شرت العسل أشورہ وقد أجاز ناس: أشرت العسل۔ ‘‘[2] ’’ ’ش۔ و۔ ر‘ مادہ سے بننے والے الفاظ سے عموماً دو بنیادی معنی جاری ہوتے ہیں۔ پہلا معنی کسی چیز کو ظاہر کرنا‘ واضح کرنا اور اس کو پیش کرنا ہے جبکہ دوسرا معنی کسی چیز کو لینے کے ہیں۔ پہلے معنی کی دلیل اہل عرب کا یہ قول ہے: شرت الدابۃ شورا‘یعنی جب تو کسی جانور کو خریدار کے سامنے پیش کرے۔ اسی طرح اس جگہ کو کہ جس میں جانوروں کو خریداروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ’مِشْوَار‘ کہتے ہیں۔ ۔ ۔ دوسرے معنی کی دلیل اہل عرب کا یہ قول ہے: ’شرت العسل أشورہ‘یعنی میں نے شہد نکالا یا میں اسے نکالتا ہوں۔ بعض لوگوں نے اس کو باب افعال سے’أشرت العسل‘ بھی جائز قرار دیا ہے۔ ‘‘ علامہ مجد الدین فیروز آبادی رحمہ اللہ متوفی ۸۱۶ھ لکھتے ہیں : ’’ وأشارعلیہ بکذا: أمرہ وھی: الشوری۔ والمشورۃ: مفعلۃ لا مفعولۃ۔ واستشارہ: طلب منہ المشورۃ۔ ‘‘[3] ’’ ’أشار علیہ بکذا‘کا معنی ہے اس نے اس کوحکم دیاہے اور اسی سے لفظ ’شوری‘ بنا ہے۔ ’مشورۃ‘ کا وزن ’مفعلۃ‘ہے نہ کہ’مفعولۃ‘۔ اسی طرف باب استفعال سے اس کا معنی مشورہ طلب کرنا ہے۔ ‘‘ ابن فارس رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق شوری کا لغوی معنی ایسی باہمی گفت و شنید ہو گی کہ جس کے ذریعے مختلف افراد کی رائے کا اظہار ہو۔ شوری کا اصطلاحی معنی و مفہوم متقدمین نے شوری کی اصطلاح کو زیادہ تر ایسے معانی کے ساتھ بیان کیا ہے جو اس کے لغوی معنی کے قریب ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ بعض سلف صالحین کے ہاں شوری کا معنی واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ عرف أبوبکر ابن العربی الشوری بقولہ: ھی الاجتماع علی الأمرلیستشیر کل واحد منھم صاحبہ‘ ویستخرج ما عندہ‘ وقریب منہ ما عرفھا بہ الراغب فی ’’غریب القرآن‘‘ أنھا استخراج الرأی بمراجعۃ البعض إلی البعض وعرف الإمام الرازی الشوری بالقوم الذین یتداعون للتشاور فیما بینھم‘ کما أطلقت کلمۃ ’’نجوی‘‘ فی قولہ تعالی:﴿ وَ اِذْھُمْ نَجْوٰٓی﴾ علی القوم الذین یتناجون فیما بینھم۔ ‘‘[4] ’’ امام أبو بکر ابن العربی رحمہ اللہ نے شوری کا معنی یہ بیان کیا ہے: کسی مسئلے میں ایسا اجتماع کہ جس میں ہر شخص دوسرے سے مشورہ کرے اور اپنی رائے کااظہار کرے۔ اسی سے قریب تر تعریف امام راغب رحمہ اللہ کی بھی ہے جو انہوں نے ’غریب القرآن‘ میں پیش کی ہے کہ شوری سے مراد ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال کے نتیجے میں ایک رائے بناناہے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے
Flag Counter