Maktaba Wahhabi

396 - 368
حادث فی کثیر من المجتمعات۔ ‘‘[1] ’’بعض لوگ مجالس شوری پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ ان کے اراکین کا چناؤ انتخاب کی بجائے تعیین کے ذریعے ہوتا ہے‘ ہمارے خیال میں یہ تنقید محل نظر ہے۔ ۔ ۔ میں اس ضمن میں یہ بات کرنا چاہوں گا کہ اسلام میں شوری کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے ‘نہ کہ بذاتہ مقصود ہے۔ پس حاکم وقت اہل حل و عقد اور ان لوگوں کی مدد سے‘ جو اپنی نسبت سیاسی جماعتوں کی طرف نہیں کرتے‘صحیح رائے کی تلاش کرتے ہیں۔ أصحاب شوری کی وفاداری اسلام‘ اللہ کے قانون کی تطبیق‘ اس کے مطابق فیصلے کرنا اور اس سے فیصلے چاہنے میں ہوتی ہے۔ پس اس وجہ سے ’تعیین کے ذریعے انتخاب کا طریقہ‘ درست ہے کیونکہ اصل مقصود ان اشخاص کی تلاش ہے جو شبہات‘ لغزشوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوں اور تعیین اس ہدف کو پورا کرتی ہے۔ ۔ ۔ علاوہ ازیں اسلام میں مجلس شوری کا دائرہ کار ان امور میں اجتہاد کرناہے کہ جن میں قرآن وسنت میں کوئی نص نہ ہو یا اجماع موجود نہ ہو۔ پس اس وجہ سے سعودی عرب کی مجلس شوری تمام امور میں اللہ کی شریعت کا التزام کرتی ہے۔ پس وہ کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال بنانے کی استطاعت نہیں رکھتی جیسا کہ اکثر ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ ‘‘ پارلیمنٹ اور شوری میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ دونوں کے اراکین کے طریقہ انتخاب کی طرح صفات میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوتاہے۔ شوری کے اراکین میں عدالت و فقاہت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ان صفات کے حامل اراکین کے چناؤ کے لیے بہترین طریقہ کار تعیین کا ہی ہے نہ کہ مروجہ انتخاب کا‘ جبکہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے کوئی دینی معیار مقرر نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے اس کومقرر کرنے کی کوشش بھی کی ہے جیسا کہ پاکستان کے ۷۳ء کے آئین میں پارلیمنٹ کے ایک ممبر کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہولیکن اس پر عمل درآمد بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ شوری کے اراکین کی بنیادی صفات ڈاکٹر سعید رمضان البوطی حفظہ اللہ نے شوری کی صفات کے بارے بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اکثر و بیشتر مصنفین نے شوری کے اراکین کی صفات بیان کرتے وقت ایک اہم نکتے کو ملحوظ نہیں رکھاہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں شوری کئی طرح کی ہے اور ہر قسم کی شوری کے اراکین کی صفات دوسری قسم سے جدا ہوں گی۔ ڈاکٹررمضان البوطی حفظہ اللہ شوری کی بنیادی طور پردو قسمیں بناتے ہیں۔ ایک شرعی أحکام کے استنباط میں شوری اور دوسری امام یا حکمران کے انتخاب میں شوری۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ کنا قد قسمنا فی أول ھذا البحث‘ مھمۃ الشوری‘ فی الشریعۃ الإسلامیۃ عموماً‘ إلی قسمین: القسم الأول: الشوری فی معرفۃ مختلف القضایا والأحکام الجزئیۃ۔ والقسم الثانی: الشوری فی اختیار إمام صالح للمسلمین۔ ‘‘[2] ’’ہم نے اس بحث کے آغاز میں یہ کہا تھا کہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں شوری کی ذمہ داریاں دوقسم کی ہیں۔ پہلی قسم تو یہ ہے کہ مختلف واقعات اور جزوی احکام کاشرعی حکم معلوم کرنا اور دوسری قسم مسلمانوں کے لیے ایک صالح امام کومنتخب کرنا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر محمد رمضان البوطی حفظہ اللہ علمائے سلف کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ہاں پہلی قسم کی شوری کے اراکین کی بنیادی صفات علم و عدالت ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ یتبین مما ذکرنا أن المعنی الذین یلتمسونہ فی اختیار من یستشیرونھم یتلخص فی العلم‘ والأمانۃ؛ دون أی شیء آخر۔ ۔ ۔ وعندما نصغی إلی أقوال علماء الشریعۃ الإسلامیۃ فی ھذا الأمر‘ لا
Flag Counter