Maktaba Wahhabi

377 - 368
قرآن و سنت کی صریح نصوص کے خلاف اجماع کے اس مسخ شدہ تصور‘سطحی تصورات اور متعصبانہ استدلال پر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے؟۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر یوسف گورایہ کی مذکورہ بالا عبارتیں چیخ چیخ کر ان کی جہالت کو اس قدر صراحت سے بیان کر رہی ہیں کہ ہمیں ان پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ کا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ڈاکٹر اسرار احمد حفظہ اللہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں قانون سازی تو پارلیمنٹ ہی کرے گی اور پارلیمنٹ میں قانون سازی بذیعہ اجتہاد ہی ہو سکتی ہے۔ پس ان کے نزدیک پارلیمنٹ ایک تو اس صورت اجتہاد کی اہل ہو سکتی ہے جبکہ اس کے ممبران درجہ اجتہاد پر فائز ہوں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’اب پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو رہی ہے‘ وہاں تو ان پڑھ لوگ بھی بیٹھے ہیں ‘ انہیں کیا پتہ کہ ہم نے دین سے تجاوز کر دیاہے۔ اب آپ کیا کریں گے؟اس کے لیے دو ہی راستے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ یا توپارلیمنٹ میں محض علماء ہی نہیں بلکہ صرف مجتہدین جائیں۔ (اور مجتہد کی ساری شرائط میں اپنے سابقہ خطاب جمعہ میں بیان کر چکا ہوں )تب تو انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی کثرت رائے سے قانون سازی کر لیں۔ یہ قانون سازی شریعت سے متصادم نہیں ہو گی۔ ‘‘[1] اس مقالے کے تیسرے باب میں ہم یہ بات تفصیل سے بیان کرچکے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک اختلافی اور اجتہادی مسائل میں حکمران یا کسی بھی ریاستی ادارے کو قانون سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ پس اس رائے کے مطابق اگر پارلیمنٹ میں مجتہدین بھی ہوں تو پھر بھی یہ ممبران اکثریت رائے سے اختلافی یا اجتہادی مسائل میں دوسرے علماء یا ان کے متبعین کو وضعی قانون کی آڑ میں اپنی اجتہادی آراء کی جبری اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہماری بھی یہی رائے ہے کہ قانون سازی کے رستے تمام علماء کو پارلیمنٹ کی اجتہادی آراء کی تقلیدپر مجبور کرنا ایک غیر شرعی اقدام ہے۔ أئمہ أربعہ میں سے کوئی امام بھی اس فکر کا قائل نہیں رہا ہے کہ اجتہادی و اختلافی مسائل میں لوگوں کو کسی متعین امام کی تقلید پر بزور بازو مجبور کیا جائے۔ ہاں ان معاملات میں پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے کہ جن میں پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے علاوہ مجتہدین کا اتفاق ہویعنی جو مجمع علیہ مسائل ہوں۔ علاوہ ازیں مباحات اور انتظامی مسائل کے دائرے میں بھی مجتہدین کی پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگر تو پارلیمنٹ میں مجتہدین نہ ہوں جیسا کہ ہر مسلمان ملک میں تقریباً ایسا ہی معاملہ ہے تو اس صورت میں پارلیمنٹ کا اجتہاد کیسے ہو گا؟اس بارے میں جناب ڈاکٹر اسرار صاحب کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں پارلیمنٹ کو صرف مباحات کے دائرے میں قانون سازی کی اجازت ہو گی۔ وہ فرماتے ہیں : ’’لیکن اگر آپ نے پارلیمنٹ میں وسیع البنیاد نمائندگی رکھی ہے تو پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے کہ مباحات کے معاملے میں کثرت رائے سے فیصلہ کر دے۔ ‘‘ [2] ڈاکٹر صاحب کی اس رائے پر جب یہ سوال پیدا ہو اکہ اس بارے میں بھی تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک امر کو مباح قرار ے رہی ہو اور قرآن وسنت کی روشنی میں علماء اسے حرام کہنے پر مصر ہوں۔ اس اختلاف کا حل کیا ہے؟۔ ڈاکٹر صاحب اس کے حل کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’لیکن کوئی شیء مباح ہے یا نہیں ‘ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس کے لیے آپ کو عدالت کا کنڈا کھٹکھٹانا ہو گا۔ اس سے’ ’فردوہ إلی اﷲ والرسول‘‘کا تقاضا کسی حد تک پور اہو جائے گا۔ یعنی اسلامی ریاست کی عدلیہ یہ طے کرے گی کہ قانون سازی میں کتاب و سنت کے اصولوں سے تجاوز ہوا یا نہیں ؟ اگروہ طے کر دیتی ہے کہ تجاوز ہو گیا ہے تو قانون کالعدم ہو جائے گا‘ لیکن عدالت نیا قانون نہیں بنائے گی۔ قانون پھر اسی پارلیمنٹ کوبنانا ہے جو کتاب و سنت کے دائرے کے اندراندر ہو۔ ‘‘[3]
Flag Counter