Maktaba Wahhabi

429 - 368
مجتہد کی طرف سے پیش کی گئی ہے ‘ وہ اہل زمانہ میں پھیل جائے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مسئلے میں غور و فکر اورتحقیق کے لیے ایک مناسب مدت گزر چکی ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مسئلہ اجتہادی ہو۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ موانع موجود نہ ہوں جو اس سکوت کا اعتبار کرنے میں مانع ہوں جیساکہ ظالم حکمران کا خوف یا تحقیق کے لیے مناسب مدت کا نہ پایا جانا یا سکوت اختیار رکرنے والے مجتہدین وہ ہوں ‘جن کی یہ رائے ہو کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اپنے علاوہ مجتہدین کے اقوال کا اس وجہ سے انکار نہ کرتے ہوں کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں یا اس مجتہد کا یہ خیال ہو کہ اگر میں نے انکار بھی کیا تو کوئی توجہ نہ دے گا وغیرہ ذلک۔ ‘‘ اجتماعی اجتہاد‘ بعض صورتوں میں اجماع سکوتی کا درجہ حاصل کر سکتا ہے ‘ خصوصاً جبکہ ایک خاص وقت گزر جانے کے باوجود بھی اس کے مخالف رائے موجود نہ ہو۔ اجماع سکوتی ہی کے قبیل کی ایک اور قسم اجماع استقرائی بھی بعض علماء نے بیان کی ہے۔ محمد حسین الجیزانی اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ومثلہ الإجماع الاستقرائی وھو أن تستقرأ أقوال العلماء فی مسألۃ فلا یعلم خلاف فیھا۔ ‘‘[1] ’’اس کی مانند استقرائی اجماع بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں علماء کے اقوال کا استقراء کیا جائے تو اس میں کوئی اختلاف معلوم نہ ہو۔ ‘‘ اجماع سندی اور اجماع مذہبی ایک اور پہلو سے اجماع کی دو بڑی قسمیں بیان کی گئی ہیں : اجماع سندی اور اجماع مذہبی۔ ڈاکٹر أحمد حسن حفظہ اللہ اجماع سندی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اجماع سندی سے مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ کے تمام علماء کسی زمانہ میں کسی مسئلہ پر اتفاق کر لیں اور ان کے اس اجماع کی خبرروایت و سند کے ساتھ ہم تک پہنچی ہو۔ ‘‘[2] اجماع مذہبی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر أحمد حسن حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اجماع مذہبی سے مراد یہ ہے کہ کسی مسلک کے کچھ مجتہدین و علماء کسی مسئلہ پر اتفاق کر لیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں : مرکب و غیر مرکب۔ ‘‘[3] اجماع مذہبی کوئی شرعی حجت نہیں ہے لیکن معلومات میں اضافے کے لیے مفید ہے۔ جیسا کہ أئمہ أربعہ یا أئمہ ثلاثہ کا کسی مسئلہ میں اتفاق بھی اجماع مذہبی ہی کی ایک مثالیں ہیں۔ اجتماعی اجتہاد ‘ اجماع مذہبی ہو سکتا ہے۔ اجماع مرکب و غیر مرکب ڈاکٹر أحمد حسن حفظہ اللہ اجماع مرکب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’مرکب وہ ہے جس میں کسی مسئلہ کے حکم کے بارے میں بہت سی رائیں اکھٹی ہوجائیں لیکن علت حکم میں اختلاف ہو۔ جیسے کسی شخص کو قے آ جائے اور اس حالت میں وہ کسی عورت کو ہاتھ بھی لگائے تو امام شافعی اور امام أبو حنیفہ دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قے کے سبب اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کو ہاتھ لگانے کے سبب سے۔ یہ اجماع دونوں علتوں میں سے ایک کے فاسد ہونے سے حجت کے قائل نہیں رہتا۔ ۔ ۔ اجماع مرکب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب مجتہدین کسی مسئلہ میں اختلاف کریں اور بعد کے دور میں مختلف مسالک کے فقہاء علیحدہ علیحدہ ان میں سے کسی ایک رائے پر اتفاق کر لیں تو اب ان دو یاتین اقوال پر اجماع کیا جائے گااور آئندہ لوگوں کو اس کا اختیار نہ ہو گا کہ اس مسئلہ میں کوئی تیسرا قول یا نظریہ اختیار کریں۔ ‘‘[4]
Flag Counter