Maktaba Wahhabi

395 - 368
المکرمۃ‘ہے۔ اسے ہم غیر سرکاری شوری کا نام دے رہے ہیں۔ مقتدر شوری اور پارلیمنٹ کا فرق یہاں ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ شوری اور پارلیمنٹ کے درمیان فرق کو واضح کر دیں۔ ہمارے ہاں بعض ناواقف حضرات شوری کو پارلیمنٹ کے مترادف قرار دیتے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ ایک مغربی اصطلاح ہے جو اپنے پیچھے مغرب کے جمہوری نظام کا ایک وسیع تصور رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ اور شوری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے اور عوام کے نمائندے ان کی طرف سے غالب اکثریت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے لیے قانون وضع کرتے ہیں جبکہ شوری میں کوئی بھی قانون بناتے وقت اصل اختیار اللہ کی ذات کے پاس ہوتا ہے اور شوری اللہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے اس کے بھیجے ہوئے قانون کو اس کے بندوں پر جاری و ساری کرتی ہے۔ وکی پیڈیا(Wiki Pedia)کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’ یعتبر أغلب شیوخ وعلماء المسلمین أن ھناک اختلاف بین الدیمقراطیۃ والشوری‘ فالدیمقراطیۃ تستند علی مبدأ أن الشعب ھو صاحب السیادۃ ومصدر الشرعیہ‘ فالسلطۃ فی النظام الدیمراطی ھی للشعب‘ وبواسطۃ الشعب تتحقق سیادتہ ومصالحہ ولو خافت الشریعۃ الإسلامیۃ۔ أما مایفرق بین الشوری والدیمقراطیۃ فھو مصدر السیادۃ فی التشریع‘ فالدیمقراطیۃ تجعل السیادۃ فی التشریع للشعب‘ أما الشوری فتجعل السیادہ للشریعۃ الإسلامیۃ ولو خالفت الأغلبیۃ۔ ‘‘[1] ’’اکثر مسلمان علماء و فقہاء کے نزدیک ڈیمو کریسی(جمہوریت)اور شوری میں فرق ہے۔ ڈیمو کریسی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ قوم ہی اصل حاکم اور مصدر قانون ہے۔ پس ایک جمہوری نظام میں اختیارات قوم کے پاس ہوتے ہیں اوراسی قوم کے توسط سے ہی اس کی قیادت اور مصلحت ثابت ہوتی ہے چاہے وہ شریعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پس جمہوریت اور شوری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قانون سازی میں اعلی اختیارکس کو حاصل ہے۔ جمہوریت میں یہ اختیار قوم کے پاس ہوتا ہے جبکہ شوری یہ اختیار شریعت اسلامیہ کو سپرد کرتی ہے‘ چاہے وہ غالب اکثریت کی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ پارلیمنٹ اور شوری میں ایک اور جوہری فرق یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین کا چناؤ بذریعہ انتخاب ہوتا ہے اور اس کے انتخاب میں مذہب اور دین جیسی بنیادی خصوصیات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ شوری کی رکنیت میں اصل اہمیت علم و تقوی اور عدالت و ثقاہت جیسی بنیادی صلاحیتوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ شوری کے فرائض و ذمہ داریوں کے اعتبار سے یہی طریقہ مناسب ہے۔ ڈاکٹر عبد اللہ بن عمر نصیف حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ماینتقد بہ بعض الناس المجالس الشوریۃ(البرلمانات)بأن تشکیلھا یتم بالتعیین بدلاً من الانتخاب‘ فھو انتقاد فی غیر محلہ۔ ۔ ۔ وأود أن أقول فی ھذا الصدد إن الشوری فی الإسلام ھی وسیلۃ ولیست غایۃ فولی الأمر یبحث عن الرأی الصائب من قبل أھل الحل والعقد و الذین لا ینتمون لأحزاب سیاسیۃ أو غیرھا‘ وإنما ولاؤھم للإسلام وتطبیق شرع اللّٰہ والحکم بہ والأحتکام إلیہ۔ فلھذا التعیین والانتخاب سیان؟ لأن الھدف ھو البحث عن اشخاص بعیدین عن الشبھۃ وعن مواطن الخلل والزلل فلذلک فإن التعیین یحقق ھذا الھدف۔ ۔ ۔ لأن مجال مجلس الشوری فی الإسلام ھو الاجتھاد فی الأمور التی لا نص فیھا من کتاب أو سنۃ أو إجماع‘ لذلک فإن مجلس الشوری فی السعودیۃ یلتزم بشرع اللّٰہ عز وجل فی کل الأمور‘ فلا یستطیع أن یحل حراماً أو یحرم حلالاً‘ کما ھو
Flag Counter