Maktaba Wahhabi

430 - 368
اجتماعی اجتہاد بھی اجماع مرکب ہو سکتا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اجماع مرکب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ اسی طرح اجماع غیر مرکب کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر أحمد حسن حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اجماع غیر مرکب: اس سے مراد یہ ہے کہ فقہاء کا ایسے مسئلہ پر اتفا ق ہو جس میں دو قول نہ ہوں بلکہ ایک قول ہو۔ اس میں امت کا ایسے مسائل پر اتفاق ہے جس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ یہ عقائد اور فرائض میں اجماع ہے۔ جس مسئلہ میں صرف ایک رائے پر اتفاق ہو جائے اور تمام فقہاء اس کو تسلیم کر لیں تو وہ غیرمرکب ہے۔ ‘[1] اجماع قطعی اور اجما ع ظنی حجت ہونے کے اعتبارسے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ اجماع قطعی اور اجماع ظنی۔ اجماع قطعی‘ حجت ہے جبکہ اجماع ظنی‘ شرعی حجت نہیں ہے۔ ابن قدامہ المقدسی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ الإجماع ینقسم إلی مقطوع ومظنون فالمقطوع ما وجد فیہ الاتفاق مع الشروط التی لا تختلف فیہ مع وجودھا ونقلہ أھل التواتر والمظنون ما اختلف فیہ أحد القیدین بأن توجد شروطہ مع الاختلاف فیہ کالاتفاق فی بعض العصر وإجماع التابعین علی أحد قولی الصحابۃ أو یو جد القول من البعض وا لسکوت من الباقی أو توجد شروطہ ولکن ینقلہ الآحاد۔ ‘‘[2] ’’اجماع کی دو قسمیں ہیں : قطعی اور ظنی۔ قطعی اجماع سے مراد وہ ہے جس میں علماء کا اتفا ق ہو اور اس میں وہ تمام شرائط بھی پائی جاتی ہوں جو اختلافی نہ ہوں اور اسے نقل کرنے والے متواتر ہوں۔ جبکہ ظنی اجماع سے مراد ہے جس میں دو قیدوں میں سے ایک اختلافی ہو جائے یعنی اس کی شروط تو پائی جا رہی ہوں لیکن ان شروط کی تکمیل میں اختلاف ہو جیسا کہ مجتہدین کا(ایک زمانے کی بجائے)زمانے کے بعض حصے میں اتفاق یا تابعین کا صحابہ رضی اللہ عنہم کے دو اقوال میں سے ایک پر اتفاق یا بعض کی طرف سے قول کا اظہار ہو اور بعض کی طرف سے سکوت ہو یااس کی شرائط تو پائی جا رہی ہوں لیکن وہ خبر واحد سے منتقل ہو رہا ہو۔ ‘‘ مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اجتماعی اجتہاد بھی اجماع ظنی ہی کی ایک قسم ہے۔ اجماع عام اور اجماع خاص اپنے اہل کے اعتبار سے اجماع کی د وقسمیں ہیں :اجماع عام اور اجماع خاص۔ ڈاکٹر محمد بن حسین الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ فإجماع العامۃ ھو إجماع عامۃ المسلمین علی ما علم من ھذا الدین بالضرورۃ کالإجماع علی وجوب الصلاۃ والصوم والحج وھذا قطعی لا یجوز فیہ التنازع۔ وإجماع الخاصۃ دون العامۃ ھو ما یجمع علیہ العلماء کإجماعھم علی أن الوطء مفسد للصوم وھذا النوع من الإجماع قد یکون قطعیاً وقد یکون غیر قطعی فلا بد من الوقوف علی صفتہ للحکم علیہ۔ ‘‘[3] ’’اجماع عامہ سے مراد عامۃالمسلمین کاضروریات دین پر اجماع ہے جیسا کہ ان کا نماز‘ روزے اور حج کے وجوب پر اجماع ہے۔ یہ اجماع قطعی ہے اور اس میں اختلاف جائز نہیں ہے۔ اجماع خاص سے مراد علماء کا اجماع ہے جیسا کہ علماء کا اس بات پر اجما ع ہے کہ وطی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اجماع کی یہ قسم بعض اوقات قطعی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں غیر قطعی‘ پس اس پر حکم جاری کرنے سے پہلے اس کی قطعیت یا غیر قطعیت کی صفت سے واقفیت ضروری ہے۔ ‘‘
Flag Counter