لجنۃ کبار العلماء
کچھ سالوں کے بعد ہیئۃ کبار العلماء کے نظام کو ختم کر کے ایک نئی مجلس لجنۃ کبار العلمائ کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں مذاہب أربعہ سے متعلق علماء کو متناسب نمائندگی حاصل تھی۔ ڈاکٹر تاج الدین أزہری حفظہ اللہ اس مجلس کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ہیئۃ کبار العلماء کا نظام تقریباً ربع صدی اسی طرح چلتا رہا۔ جب الشیخ مصطفی المراغی رحمہ اللہ کا دور آیا تو ١٢ جمادی الأولی ١٣٥٤ھ مطابق ١١ اگست ١٩٣٥ء کو ہیئۃ کبار العلماء کی جگہ لجنۃ کبار العلماء نے لے لی۔ یہ کمیٹی ایک چیئر مین اور گیارہ ارکان پر مشتمل تھی جن میں سے تین حنفی' تین مالکی' تین شافعی اور دو حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کمیٹی کا کام دینی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور دینی امور سے متعلق ان کے سوالوں کے جواب دیناتھا۔ اگر سوال کسی خاص مسلک کے حوالے سے پوچھا جاتا تو کمیٹی اس مسلک کے مطابق جواب دیتی' ورنہ کتاب و سنت' اجماع' قیاس صحیح اور سائل کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے محکم دلائل کے ساتھ جواب دے دیا جاتا' مثلاً یہ سوال کہ شادی کی حرمت کے لیے کتنی رضعات شرط ہیں ؟ فقہائے أربعہ کا اس میں اختلاف ہے۔ کسی نے ایک کہا ہے' کسی نے تین اور کسی نے پانچ اور وہ بھی یقین کے ساتھ اور دو سال کی عمر تک پہنچنے کے دوران۔ کمیٹی کا فتوی آخری قول پر ہے جو امام أحمد رحمہ اللہ اور اما م شافعی رحمہ اللہ کا ہے' کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی ہے اور یہ دلیل کے اعتبار سے مضبوط بھی ہے۔ ‘‘ [1]
١٩٣٦ء میں اس کمیٹی کا نام تبدیل کر کے جماعۃ کبار العلماء رکھ دیا گیا اور اس کے اراکین کے انتخاب میں سابقہ شرائط کو برقرار رکھتے ہوئے مزید ایک شرط کا اضافہ کیا گیا اور وہ یہ تھی کہ اس کمیٹی کا رکن بننے والے علماء کے لیے یہ شرط ہے کہ انہوں نے دینی علوم کے فروغ میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا ہو اور مزید برآں انہوں نے کوئی ایسا علمی مقالہ پیش کیا ہو جس سے علمی بحث و تحقیق کے کچھ نئے پہلو اجاگر ہوتے ہوں۔
مجمع البحوث الإسلامیۃ
جامعہ أزہر سے متعلقہ مصری قانون نمبر ١٠٣ کے تحت 'مجمع البحوث الإسلامیۃ' کا قیام ١٩٦١ء میں عمل میں لایا گیا اور شیخ الأزہر کو اس کا صدر مقرر کیا گیا۔ نصر محمود الکرنز لکھتے ہیں :
'' أنشیء سنۃ ١٩٦١م/ ١٣٨١ھ بموجب القانون ١٠٣ المتعلق بتطویر الأزھر' علی أن یرأسہ شیخ الأزھر' وأن یکون لہ أمین عام' و یضم عدۃ لجان: لجنۃ القرآن' ولجنۃ البحوث الفقھیۃ' ولجنۃ إحیاء التراث الإسلامی ولجنۃ الدراسات الاجتماعیۃ وتقوم لجنۃ البحوث الفقھیۃ بتقنین الشریعۃ الإسلامیۃ علی المذاھب المختلفۃ ...وقد انعقد أول مؤتمر سنۃ ١٣٨٣ھ ١٩٦٤م.‘‘[2]
’’مجمع کا قیام ١٩٦١ء میں بمطابق ١٣٨١ھ قانون ١٠٣کے تحت عمل میں لایا گیا جو جامعہ أزہر کی نشوونما سے متعلق ہے۔ اس کے صدر جامعہ کے شیخ ہوں گے۔ علاوہ ازیں اس کا ایک سیکرٹری جنرل بھی ہو گا۔ یہ مجمع کئی ایک ذیلی کمیٹیوں پر مشتمل ہوگا مثلاً قرآن کمیٹی' فقہی مباحث کی کمیٹی' اسلامی ورثے کے احیاء کی کمیٹی اور معاشرتی مسائل کی تحقیقی کمیٹی وغیرہ۔ فقہی مباحث کی کمیٹی کا کام مختلف مذاہب کے مطابق قانون سازی [کی سفارشات پیش] کرنا ہے...اس کا پہلا اجلاس ١٣٨٣ھ بمطابق ١٩٦٤ء میں ہوا۔ ‘‘
قیام کے أغراض و مقاصد
١٩٦١ء کے قانون نمبر ١٠٣ میں مجمع کے قیام کے بارے میں کئی ایک اغراض و مقاصد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر تاج الدین أزہری حفظہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
|