Maktaba Wahhabi

369 - 368
خطبہ اجتہاد اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تنقید ڈاکٹر اقبال مرحوم کے استاذ جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ان کے خطبہ اجتہاد پر بہت کڑی تنقید کی ہے۔ سید صاحب نے اپنی زندگی میں ہی ڈاکٹر غلام محمد صاحب کو اقبال مرحوم کے خطبات کے حوالے سے کچھ تنقیدی تحریریں املاء کروائیں تھیں۔ سید صاحب کی یہ تحریریں ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکیں بلکہ اس تنقید کو پہلی مرتبہ ماہنامہ ساحل نے جون ۲۰۰۶ء کے شمارے میں ’امالی ڈاکٹر غلام محمد‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ بعض ماہرین اقبال کا خیال ہے کہ ان’ امالی‘ کی سید صاحب کی طرف نسبت مشکوک ہے۔ بہر حال یہ امالی سید صاحب کے ہوں یا نہ ہوں ‘ اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔ واقعہ یہ ہے اور ہم دیکھیں گے کہ یہ امالی جس کے بھی ہیں ‘ انہوں نے ڈاکٹر اقبال مرحوم کے فکر و نظر کے تار و بود بکھیر دیے ہیں۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ‘ اقبال مرحوم کے نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ قدیم علماء نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں ‘ وہ اقبال مرحوم کو عصر حاضر کے کسی فرد میں نظر نہ آئیں ‘ توانہوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا‘ جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکھٹی ہو سکتی ہیں ‘ سو صفر اکھٹے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں ‘ اسمبلیوں کے انتخابات کا تماشہ ہندوستان میں بہت دیکھا جا چکا‘ یہ اسمبلیاں کیسے اجتہاد کر سکتی ہیں ؟ اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے‘ تمام انسان برابر ہیں ‘ ایک زمانہ تھاجب ہند میں صرف ٹیکس دینے والے ووٹ دے سکتے تھے‘ وہ زمانہ بھی ختم ہو گیا‘ ہم پاکستان کی اسمبلی کو اجتہاد کے قابل نہیں سمجھتے ‘ اس کے اراکین کا دینی علوم سے کیا تعلق۔ ایک آدھ استثناء چھوڑ دیجئے۔ اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقال کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں ‘ اب بقال‘ حمال‘ حجام اور موچی اجتہاد کریں گے‘ اقبال مرحوم کا یہ نقطہ نظر ان کی سطحیت کو واضح کرتا ہے‘ اس سطحیت کا احساس انہیں آہستہ آہستہ ہوتاگیاکیونکہ شروع میں خطبات پر علی گڑھ میں بہت داد ملی اور ہندوستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے‘ انہیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔ ‘‘[1] ڈاکٹر اقبال مرحوم کے خطبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترکی میں مصطفی کمال پاشا کی اصلاحات سے بہت متاثر تھے اور اپنے مقالہ اجتہاد میں جابجا ترکوں کی تعریف اور اجتہادی بصیرت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ سید صاحب‘ ڈاکٹر اقبال کے ترکی قوم سے تاثر کوفکر اقبال کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں : ’’انتہاء یہ ہے کہ وہ ترکی کی اصلاحات کو بھی اجتہاد کے احیاء کی نئی شکلیں قرار دیتے ہیں اور ان شکلوں کی بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلامی ثقافت اپنی اصل میں حرکت پذیر ہے اور اس حرکت کے لیے قوت نمو اسے خارج سے نہیں داخل سے فراہم ہوتی ہے‘ آج اقبال مرحوم زندہ ہوتے تو اپنے ان مفروضوں کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے‘ ان کی نظر سے کمال اتاترک کے کمالات نہیں گزرے‘ جب وہ آسمان کی طرف مکا اٹھا کر اللہ کو دکھاتا ہے اگر اسلام ایسے اجتہاد کے لیے آیا تھا تو پھر اسلام کی کیا ضرورت ہے؟۔ ‘‘[2] سید صاحب کے بقول اقبال نے اپنا نظریہ اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ ‘ ترک پارلیمنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا۔ لیکن اپنے اس فکر کوپیش کرتے ہوئے اقبال مرحوم کئی مقامات پر اپنے ہی پیش کردہ نظریات کی مخالفت بھی کر گئے۔ سید صاحب لکھتے ہیں : ’’اگر ایسا کوئی مجتہد پیدا ہو جائے تو وہ ضرور اجتہاد کرے لیکن ترکی کے کمال مصطفی اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ‘ ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنااقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔ اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدین عصر پر لطیف طنز کیا ہے‘ جو علوم نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علمبردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے کہ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے‘ عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علوم اسلامی میں رسوخ کے
Flag Counter