شاہی فرمان میں یہ بھی طے کیا گیا کہ ہیئۃ کی تحقیقات کی نشر واشاعت کے لیے ادارہ تحقیقات اسلامیہ کی زیر سرپرستی ایک مجلہ جاری کیا جائے گا،جس میں ہیئۃ کی موافقت و مشاورت سےہیئۃ کی جاری کردہ قراردادوں اور اس کے اراکین کے مقالہ جات شائع کیے جائیں گے۔ شاہی فرمان کے الفاظ ہیں :
'' تتولی رأاسۃ ادارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد إنشاء مجلۃ دوریۃ تنتشر البحوث العلمیۃ التی توفق الھیئۃ علی نشرھا وکذلک البحوث العلمیۃ التی ترد من بعض الباحثین بعد موافقہ الأمین العام للھیئۃ علی نشرھا.''[1]
’’ادارہ تحقیقات اسلامیہ برائے افتاء،دعوۃاورارشاد کے سربراہان ایک میعادی مجلہ جاری کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جس میں ان علمی تحقیقات کوشائع کیا جائے گا، جس کی نشر و اشاعت پرہیئۃ کااتفاق ہو۔ اسی طرح وہ علمی تحقیقات بھی اس مجلے میں شائع ہوں گی جو بعض محققین کی طرف سے پیش کی جائیں اور ہیئۃکے سیکرٹری جنرل کا ان کی اشاعت پر اتفاق ہو۔ ‘‘
ذیلی ادارے
ہیئۃکے ذیلی اداروں میں صرف ایک ہی معروف ادارہ'اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء'ہے۔ یہ کمیٹی١٩٧١ء میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے تشکیل دی گئی تھی۔ شاہی فرمان کے الفاظ درج ذیل ہیں :
'' تتفرغ عن الھیئۃ(لجنۃ)دائمۃ متفرغۃ یختار أعضائھا من بین أعضاء الھیئۃ بأمر ملکی.''[2]
’’بادشاہ کے فرمان سے ہیئۃ کے اراکین میں سے کچھ ارکان پر مشتمل ایک' مستقل کمیٹی' بنائی جائے گی۔ ‘‘
اس کے صدر اور ارکان کے ناموں کا اعلان'إدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتائ'کے سربراہ کے مشورے سے شاہی فرمان کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ شاہی فرمان میں ہے:
'' یعین رئیس اللجنۃ الدائمۃ فیھا وأعضائھا بأمر منا بترشیح من رئیس إدارات البحوث.''[3]
’’ مستقل کمیٹی کے صدر اور اس کے اراکین کا تعین ادارہ تحقیقات کے سربراہ کی تجویز پر شاہ کے فرمان سے ہو گا۔ ‘‘
اس کمیٹی کے فتاوی جاری کرتے وقت بھی وہی منہج اختیار کیا گیا جو ہیئہ کے لیے طے کیا گیا تھا۔ شاہی فرمان کے مطابق اگر کسی مسئلے میں کمیٹی کے اکثر ارکان کسی رائے پر متفق ہوں تو اس کے مطابق فتوی جاری کر دیا جائے گا۔ شاہی فرمان کے الفاظ ہیں :
'' لا تصدر الفتاوی عن اللجنۃ الدائمۃ إلا إذا وافقت علیھا الأغلبیۃ المطلقۃ من أعضائھا علی الأقل علی أن لا یقل عدد الناظرین فی الفتوی عن ثلاثۃ أعضاء وإذا تساوت الأصوات یکون صوت الرئیس مرجحاً.''[4]
’’ مستقل کمیٹی سے اس وقت تک کوئی فتوی جاری نہ ہو گا جب تک اس کے اراکین کی مطلق اکثریت اس پر متفق نہ ہو اور فتوی پر بحث کرنے والے علماء کی تعداد کم از کم تین ہو۔ اور اگراختلاف کی صورت میں اراکین کی تعداد دونوں جانب برابر ہو تو صدر مجلس کی رائے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ‘‘
قیام کے وقت اس ادارے کے ارکان درج ذیل علماء تھے:
1۔ شیخ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ صدر
|