Maktaba Wahhabi

495 - 368
سیکرٹری جنرل اور ادارہ تحقیقات کے صدر پر ہو گی۔ ‘‘ ہیئۃ نے مختلف موضوعات پر جو فتاوی جاری کیے ہیں، ان سے بھی اس کے منہج تحقیق کے حوالے سے بہت زیادہ رہنمائی ملتی ہے۔ ھیئۃکے فتاوی اور تحقیقات میں غالب اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ مسائل میں رائے کے اظہار کے لیے قرآن وسنت کو بنیاد بنایا گیا ہے اور کسی معین مذہب یا فقہ کی پیروی کی بجائے تمام مذاہب اسلامیہ سے استفادہ کیاگیاہے۔ ڈاکٹر سہیل حسن کے منہج کی وضاحت میں لکھتے ہیں : 1۔ فتاوی میں اصل بنیاد قرآن و سنت ہے اور اس کی تفسیر و تأویل کے لیے اہل علم کی آراء سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ 2۔ امت کے تمام أئمہ کرام کی آراء سے کسی مسلکی تفریق کے بغیر فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ان کے دلائل سے بحث کی جاتی ہے۔ 3۔ کسی ایک مسلک یا مذہب کا اتباع نہیں کیا جاتا بلکہ دلیل کی بنیاد پر رائے دی جاتی ہے۔ 4۔ جدید مسائل میں ان کے قدیم نظائر سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ 5۔ جدید مسائل میں فنی ماہرین اور متخصص افراد اور اداروں کی آراء سے بھی بھر پور استفادہ کیا جاتا ہے۔ 6۔ مسائل کے حل میں آسانی اور دین کے اصل مقاصد کو پیش نظر رکھاجاتاہے۔ 7۔ تمام مقالات میں وضاحت ' تدریج' مختلف نکات میں تقسیم،دلائل سے بحث اور اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا جیسے نمایاں امور نظر آتے ہیں۔ 8۔ اکثر مسائل میں تمام ارکان کا متفقہ موقف سامنے آتا ہے اور اختلاف کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔ 9۔ مسائل کے بارے میں آزادنہ ماحول میں حل پیش کیاجاتاہے۔ کسی قسم کا دباؤ نظر نہیں آتا۔ 10۔ عہد حاضر کے مسائل میں احتیاط کا پہلو غلب رہتاہے۔ [1] فتوی صادر کرنے کا طریقہ کار جب کسی موضوع پرہیئۃمیں بحث مکمل ہو جاتی ہے تو اکثر اراکین کی رائے کے مطابق فتوی جاری کر دیا جاتا ہے اور جن اراکین کو اکثریتی اجتماعی رائے سے کچھ اختلاف ہوتا ہے،وہ اختلافی نکات بھی فتوی کے آخر میں درج کر دیے جاتے ہیں۔ شاہی فرمان میں فتوی صادر کرنے کے بارے میں درج ذیل احکامات تھے: '' وتتخذ الھیئۃ قراراتھا وتوصیاتھا بالأغلبیۃ المطلقۃ للحاضرین وإذا تساوت الأصوات یکون صوت الرئیس مرجحاً ومن المفید أن یکتب الأعضاء المخالفون نوع مخالفتھم وأسبابھا وأدلتھا مع ذکر البدیل عن الرأی الذی خالفوہ.''[2] ’’ ہیئۃ اپنی قراردادوں اور تجاویز کو حاضر اراکین کی اکثریت سے جاری کرتی ہے اور اگر کسی مسئلے میں مخالف اراکین کی تعداد برابر ہو توصدر مجلس کی رائے کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا۔ یہ أمر بھی مفید ہو گا کہ مخالف اراکین اپنے اختلاف کی نوعیت،اسباب،دلائل اور اس رائے کا متبادل بھی پیش کریں کہ جس کی انہوں نے مخالفت کی ہے۔ ‘‘ ہیئۃکے اراکین میں سے کسی رکن کوبھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ انفرادی حیثیت میں ہیئۃکے نام سے کوئی فتوی جاری کرے یا کسی رائے کااظہار کرے۔ شاہی فرمان میں ہے: '' لا یجوز لأحد من الأعضاء أن یصدر فتوی أو بحث أو رأی باسم عضویتہ فی الھیئۃ العلمیۃ أو باسم منصبہ الرسمی.''[3]
Flag Counter