Maktaba Wahhabi

392 - 368
حضرت میمون بن مہران رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا جب بھی انہیں کوئی مسئلہ صریح طور پر کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ملتا تو وہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں مشورہ کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ کان أبو بکر الصدیق ‘ إذا ورد علیہ الخصم نظر فی کتاب اللّٰہ ‘ فإن وجد فیہ ما یقضی بینھم قضی بہ‘ وإن لم یکن فی الکتاب و علم من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سنۃ قضی بہ‘ فان أعیاہ خرج فسأل المسلمین وقال: أتانی کذا و کذا فھل علمتم أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قضی فی ذلک بقضاء؟ فربما اجتمع الیہ النفر کلھم یذکر من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قضاء‘ فیقول أبو بکر: الحمد ﷲ الذی جعل فینا من یحفظ علی نبینا فان أعیاہ أن یجد فیہ سنۃ من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع رؤوس الناس وخیارھم فاستشارھم فان أجمع رأیھم علی أمر قضی بہ۔ ‘‘[1] ’’جب حضرت أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ میں غور وفکر کرتے تھے۔ پس اگر انہیں کتاب اللہ میں کوئی ایسی چیز مل جاتی کہ جس کے مطابق وہ فیصلہ کر سکیں تو وہ اس کے ساتھ فیصلہ کر دیتے تھے۔ پس اگر کتاب اللہ میں کوئی مسئلہ موجود نہ ہوتااور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ان کے علم میں ہوتی تو اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ پس اگرانہیں کو ئی سنت نہ ملتی تو وہ مسلمانوں کی طرف نکلتے اور ان سے پوچھتے اور کہتے: میرے پاس فلاں فلاں مسئلہ آیا ہے‘ کیا تم میں سے کسی کے پاس اس بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ محفوظ ہے۔ بعض اوقات لوگوں ایک جماعت ان کے پاس اکھٹی ہوجاتی جو ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قضاء کے بارے میں خبر دیتی۔ اس پر حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کہتے: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے مابین ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ پس اگر وہ کسی مسئلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت پانے سے بھی عاجز آ جاتے تو بہترین اورقابل افراد کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے۔ پس اگر ان کی رائے کسی مسئلے پر متفق ہو جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی بعض روایات سے اسی طرز عمل کی نشاہدہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہے: ’’ قال جعفر وحدثنی میمون أن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ کان یفعل ذلک فان أعیاہ ان یجد فی القرآن والسنۃ نظر ھل کان لأبی بکر رضی اللّٰہ عنہ فیہ قضاء فان وجد أبا بکر رضی اللّٰہ عنہ قد قضی فیہ بقضاء قضی بہ والا دعا رؤوس المسلمین وعلمائھم فاستشارھم فاذا اجتمعوا الأمر قضی بینھم۔ ‘‘[2] ’’جعفر کہتے ہیں اور مجھے برقان بن میمون نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ پس اگر وہ اس سے عاجز آ جا تے کہ وہ کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی حکم پا لیں تو یہ غور و فکر کرتے تھے کہ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ جاری کیا ہے یا نہیں۔ پس اگر وہ اس بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ پا لیتے تواسی کے مطابق فیصلہ جاری فرما دیتے تھے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کے أمراء اور چیدہ چیدہ افراد کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ پس جب وہ ایک رائے پر اکٹھا ہو جاتے تھے تو اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرما دیتے تھے۔ ‘‘ شوری کی أقسام ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ اپنے مقالے میں شوری کی کئی ایک اقسام و انواع بیان کی ہیں۔ یہ اقسام ایک اسلامی معاشرے کے مختلف گوشوں میں شوری کے کردار اور اہمیت کو خوب اچھی طرح واضح کرتی ہیں۔ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ نے شوری کی سات اقسام بیان فرمائی ہیں۔ جن میں
Flag Counter