Maktaba Wahhabi

471 - 368
4. The Blashphemy Law(Section 295(C)P.P.C.) [1] کونسل کی تجاویز کی رہنمائی میں قائم ہونے والے نئے ادارے درج ذیل ادارے بھی کونسل ہی کے مشوروں کی رہنمائی میں بنائے گئے ہیں : وزارت مذہبی و اقلیتی امور لاء کمیشن شریعہ اکیڈمی شریعہ بنچ(bench)اور فیڈرل شریعت کورٹ[2] کونسل کی ساخت کا تنقیدی جائزہ کونسل کی تشکیل میں دو چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ایک تو مذہبی و مسلکی توازن اور دوسرا سیاسی وابستگی۔ ہمارے خیال میں ایک علمی مجلس کی تشکیل میں ان دونوں چیزوں کو معیار بنانا ایک غلط طرز عمل ہے۔ صلاحیت و اہلیت سے صرف نظر کرتے ہوئے مذہبی و مسلکی بنیادوں پر کونسل کے اراکین کی تشکیل صحیح اجتہاد اور حق بات تک رہنمائی میں رکاوٹ بنتی ہے۔ محمد منیر أحمد لکھتے ہیں : ’’ مشاہدے میں آیا ہے کہ کونسل میں پاکستان کے معروف مکاتب فکر' یعنی شیعہ ' دیوبندی ' بریلوی اور اہل حدیث کو نمائندگی دی جاتی ہے تاکہ مسلکی توازن و اعتدال کی فضا برقرار رہے۔ مسلکی معیار انتخاب کی بناء پر دینی حلقوں میں کونسل کی اجتہادی حیثیت غور طلب مسئلہ ہے' کیونکہ مسالک کی بنیاد پر منتخب ہونے والے بعض ارکان فقہی رائے دیتے ہوئے عموماً اپنے مسلک کی تشریح و تعبیر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ' جس سے کونسل کی رائے کی ثقاہت متاثر ہو سکتی ہے۔ اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ مجتہد اپنی مسلکی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر فقہی رائے دے۔ ‘‘[3] ماضی قریب میں کونسل کی تشکیل پر ایک نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کونسل میں علماء کے حلقوں میں سے مختلف مسالک کی نمائندگی بھی عموماً انہی افراد کو دی گئی جن کا کوئی سیاسی پس منظر تھا۔ اس طرح علمی و فقہی بصیرت رکھنے والے علماء کو عموماً نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ محمد منیر أحمد لکھتے ہیں : ’’ مزید بر آں مسلکی وابستگی کی بناء پر علماء کے انتخاب نے اصل اہلیت اور کونسل کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ماضی میں بعض ایسے افراد پر نگاہ انتخاب پڑی ہے جو فقہی اور قانونی مہارت کی بجائے سیاسی وابستگیوں کی بدولت نمایاں تھے۔ ‘‘ [4] کونسل کا اجتہادی معیار ضیاء الحق مرحوم کے دور کے بعد سے کونسل میں عموماً جن افراد کو نمائندگی دی گئی' ان کی اکثریت عربی زبان کی شد بد سے بھی واقف نہیں ہے۔ اگر کچھ عربی جاننے والوں کو کونسل کی رکنیت حاصل ہو بھی گئی تو وہ بھی کسی سیاسی پس منظریا تجدد پسندی کی وجہ سے ایسا ہوا اور ان میں سے بھی
Flag Counter