Maktaba Wahhabi

439 - 368
اجماع کی مختلف فیہ اقسام میں ہے‘ تو یہ بات درست ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ اجتماعی اجتہاد کے لفظ کا اطلاق ایک ہی زمانے میں موجود اکثر علماء کے اتفاق پر ہوتا ہے جیسا کہ اس کا اطلاق بعض اوقات جمہور علماء سے کم کے اتفاق پر بھی ہوجاتا ہے اور اس کے کئی ایک درجات ہیں۔ جب بھی کوئی اجتہاد تین یا اس سے زائد مجتہدین کے باہمی مشاورے اور تحقیق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہو گا تو وہ اجتماعی اجتہاد ہی کہلائے گا لیکن جیسے جیسے مجتہدین کی تعداد بڑھتی جائے گی اس اجتہاد کی قوت بھی بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ کسی زمانے میں امت مسلمہ کے علماء کی اکثریت کا اس پر اتفاق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی تجویز میں یہ بات سامنے رکھی ہے کہ اجتماعی اجتہاد اکثر اوقات اجماع سکوتی سے مشابہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ اس رائے سے متفق فقہاء کی اکثریت صراحت سے اپنی رائے کو بیان کر نے والی ہو بلکہ اس میں یہ بھی کافی ہوتا ہے کہ مجتہدین کی ایک جماعت‘ تھوڑی ہو یا زیادہ‘ اپنی رائے کا اظہار کرے اور دوسرے اس پر سکوت اختیار کریں۔ یعنی نہ تو ا س موافقت کریں اور نہ ہی اس کی مخالفت۔ ‘‘ اجتماعی اجتہاد کے ذریعے اجماع کا حصول سابقہ عنوان کے تحت ہم یہ بحث پڑھ چکے ہیں کہ اجتماعی اجتہاد‘ اجماع تو نہیں لیکن اس کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ضرورہے۔ ایک اجتماعی اجتہاد سے اجماع تک کے اس سفر کوعملاً کیسے طے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ہر ملک میں انجمن فقہاء قائم کی جائے۔ کسی مقام پر اس کا صدر مرکز ہو۔ یہ مرکز پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے اور پاکستان میں سے باہر بھی۔ حتی کہ ماسکو اور واشنگٹن میں بھی ہو سکتا ہے‘ اس میں کوئی أمر مانع نہیں کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کا ایک مخصوص ادارہ ہوگا۔ جہاں بھی مرکز ہو اس کو سوال پیش کیا جائے گا۔ اگر سیکرٹریٹ کی رائے میں وہ سوال واقعی اس کا متقاضی ہو۔ مسلمان فقہاء عالم رائے دیں تو اس سوال کو اپنی ساری شاخوں کے پاس روانہ کر دے گا‘ اسلامی ممالک کی شاخوں کو بھی اور غیر اسلامی ممالک کی شاخوں کو بھی۔ ہر شاخ کاسیکرٹری اپنے ملک کے سارے مسلمان قانون دانوں کے پاس سوال کی نقل روانہ کر کے درخواست کرے گا‘ تم اپنا مدلل جواب اس کے متعلق روانہ کرو‘ جب اس کے پاس یہ جواب جمع ہو جائیں ‘ تو مرکز کو روانہ کرے گا کہ یہ متفقہ جواب ہے۔ اگر اختلافی جواب ہے تو اختلافات کے ساتھ۔ غرض جب ساری شاخوں کے پاس سے جواب آ جائے اور دیکھا جائے کہ اس پر سب کا اتفا ق ہے‘ تو ا س امر کا اعلان کیا جاسکتا ہے کہ اس جواب پر سب متفق ہیں لیکن اگر اختلاف ہوتو دلیلوں کا ایک خلاصہ تیار کیا جائے اور دوبارہ اس کو گشت کرایا جائے تاکہ جن لوگوں کی پہلے رائے تھی‘ ان کے سامنے مخالف دلیلیں بھی آئیں اور انہیں غور کرنے کا موقع ملے۔ ممکن ہے وہ اپنی رائے بدل کر اس دوسری رائے سے متفق ہو جائیں ‘ جوان کے مخالفین کی تھی۔ جب اس طرح کافی غور و خوض کے بعد دوبارہ تمام شاخوں سے مرکز کے پاس جواب موصول ہو جائیں ‘ تویہ معلوم ہو جائے گاکہ کس چیز پر اجماع ہوا ہے اور کس چیز پر اختلاف رائے ہے۔ نیز یہ کہ اختلافی پہلو پر اکثریت کی رائے کیا ہے؟ ان سب نتائج کو ایک رسالے کی صورت میں شائع کیا جائے جس میں جوابات مع دلائل درج ہوں۔ یہ میرا تصور ہے کہ ہمارے زمانے میں اجماع کا اگر ہم ایک ادارہ بنانا چاہیں ‘ تو کس طرح بنائیں اور کس طرح اس سے استفادہ کریں۔ یہ قطعا ًممکن نہیں کہ دنیا بھر کے ماہر فقہاء اسلام کو مستقل طور پر ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ وہ کسی چند روزہ اجتماع میں شرکت کے لیے تو آ سکتے ہیں لیکن ساری عمر ایک مقام پر گزارنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان ملکوں کے لیے جہاں کے باشندے ہیں ‘ فائدہ مند چیز ہو گی کیوں کہ ان کی خدمات سے ان کے ہم وطن محروم ہوجائیں گے۔ اس کے بر خلاف اگر اس طرح انجمن بنائی جائے ‘ تو وہ اپنی رائے آسانی کے ساتھ دے سکتے ہیں اور ان سے ساری دنیا کے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔ ‘‘[1] عصر حاضر میں اجماع کے حصول کایہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ اس بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد ‘ اگرچہ اجماع کی مانند شرعی حجت تو نہیں ہے لیکن اس میں انفرادی اجتہاد کی نسبت صحت کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ اجماع سکوتی کا درجہ بھی حاصل کر لیتا ہے اور اگر دین کے کسی صریح اور بنیادی مسئلے میں ہو کہ جس میں کسی عالم دین کا اختلاف کرنا ناممکن نظر آتا ہو‘ تو اس کو اجماع صریح بھی کہہ سکتے ہیں
Flag Counter