Maktaba Wahhabi

431 - 368
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اجماع کی ان دونوں قسموں کو بیان کیا ہے۔ [1] ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے اجماع کی اقسام ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے بھی اجماع کی دوقسمیں ہیں۔ ڈاکٹر محمد بن حسین الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وباعتبار نقلہ إلینا ینقسم الإجماع إلی إجماع ینقلہ أھل التواتر وإجماع ینقلہ الآحاد وکلا القسمین یحتاج إلی نظر من جھتین:من جھۃ صحۃ النقل وثبوتہ ومن جھۃ نوع الإجماع ومرتبتہ۔ ‘‘[2] ’’ہم تک نقل ہونے کے اعتبار سے اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ اجماع جسے متواتر لوگ نقل کرتے ہیں اور دوسرا وہ اجماع جسے آحاد نقل کرتے ہیں۔ ان دونوں قسموں پر دو اعتبارات سے غور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے نقل کی صحت کے اعتبار سے اور ان کی نوعیت اور مرتبے کے پہلو سے۔ ‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ نے تواتر سے منقول اجماع کی قسم کو حجت قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بقول ایسا اجماع عموماًان ضروریات اور أصول دین میں ہوتاہے جو سنت سے ثابت ہوں اور ان کے سنت ہونے پرامت کااجماع بھی ہو اور اس اجماعی سنت کونقل کرنے والی عوام الناس کی ایک کثیر جماعت ہو۔ [3] نقل روایت اور فہم نص پر اجماع مجمع علیہ مسئلے کے اعتبار سے بھی اجماع کی دو قسمیں ہیں۔ بعض اوقات مجمع علیہ مسئلہ ایسا ہوتا ہے جو کسی نص سے ثابت ہوتا ہے اور امت کا اجماع اس کے بطور نص ثابت ہونے پر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کے ثبوت پر امت کا اجماع ہے اور بعض اوقات کسی نص کے فہم پر امت کا اجماع ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کی نص ’أقیموا الصلاۃ‘میں فعل أمر وجوب کے لیے ہے اور اس نص سے وجوب صلوۃ ثابت ہوتا ہے حالانکہ لغوی طور پر اس بات کا احتمال ہے کہ فعل أمر یہاں استحباب یا اباحت کے معنی میں ہو لیکن علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس نص میں فعل امر وجوب کے لیے ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کی ان دونوں قسموں کو بیان کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ قال الشافعی: فقال لی قائل: قد فھمت مذھبک فی أحکام اللّٰہ ثم أحکام رسولہ وإن من قبل عن رسول اللّٰہ فعن اللّٰہ قبل بأن اللّٰہ افترض طاعۃ رسولہ وقامت الحجۃ بما قلت بأن لا یحل لمسلم علم کتاباً ولا سنۃ أن یقول بخلاف واحد منھما وعلمت أن ھذا فرض اللّٰہ فما حجتک فی أن تتبع ما اجمتع الناس علیہ مما لیس منہ نص حکم اللّٰہ ولم یحکوہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ أ تزعم ما یقول غیرک أن إجماعھم لا یکون أبدا إلا علی سنۃ ثابتۃ وإن لم یحکوھا قال فقلتہ أما ما اجتمعوا علیہ فذکروا أنہ حکایۃ عن رسول اللّٰہ فکما قالوا إن شاء اللّٰہ وأما ما لم یحکوہ فاحتمل أن یکون قالوا حکایۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واحتمل غیرہ ولا یجوز أن نعدہ لہ حکایۃ لأنہ لا یجوز أن یحکی إلا مسموعاً۔ ‘‘[4] ’’امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ مجھے ایک کہنے والے نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے بارے آپ کا مذہب اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ پس جو شخص بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خبر کو قبول کرے گا وہ اللہ ہی کی خبر قبول کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو فرض کیا ہے اور جو کچھ(دلائل )آپ نے(اس مسئلے میں )بیان کیے ہیں اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کتاب و سنت کی خبر پہنچ جانے کے بعد اس کی مخالفت کرے اور میں نے یہ بھی جان
Flag Counter