Maktaba Wahhabi

353 - 368
شاہی فرمان میں اس کمیٹی کے دو بنیادی فرائض کی نشاندہی کی گئی ہے۔ شاہی فرمان کے الفاظ ہیں : ’’ وتکون مھمتھا إعداد البحوث وتھیئتھا للمناقشۃ من قبل الھیئۃ وإصدار الفتاوی فی الشؤون الفردیۃ وذلک بالإجابۃ علی أسئلۃ المستفتین فی شؤون العقائد والعبادات والمعاملات الشخصیۃ وتسمی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والفتوی ویلحق بھا عدد من البحاث المعاونین۔ ‘‘[1] ’’ مستقل کمیٹی کا کام ہیئۃ کی طرف سے مختلف قسم کی تحقیقی مقالات کی تیاری اور ان کو مناقشے کے لیے پیش کرنا ہے۔ علاوہ ازیں فردی معالات میں فتوی جاری کرنا بھی اس کمیٹی کا فرض منصبی ہو گا۔ اور یہ فتوی اس وقت جاری کیا جائے گا جبکہ عامۃ الناس عقائد‘ عبادات اور شخصی معاملات میں کمیٹی سے فتوی طلب کریں۔ اس کمیٹی کا نام ’مستقل کمیٹی برائے فتوی و تحقیق‘ ہو گا۔ اس کمیٹی کے ساتھ کچھ معاون محققین بھی ہوں گے۔ ‘‘ کمیٹی کا فتوی جاری کرنے کا منہج اس کمیٹی کے فتاوی جاری کرنے کا بھی وہی منہج ہے جو’ہیئۃ کبار العلماء‘کے لیے طے کیا گیا تھا۔ شاہی فرمان کے مطابق اگر کسی مسئلے میں کمیٹی کے اکثر ارکان کسی رائے پر متفق ہوں تو اس کے مطابق فتوی جاری کر دیا جائے گا۔ شاہی فرمان کے الفاظ ہیں : ’’ لا تصدر الفتاوی عن اللجنۃ الدائمۃ إلا إذا وافقت علیھا الأغلبیۃ المطلقۃ من أعضائھا علی الأقل علی أن لا یقل عدد الناظرین فی الفتوی عن ثلاثۃ أعضاء وإذا تساوت الأصوات یکون صوت الرئیس مرجحاً۔ ‘‘[2] ’’ مستقل کمیٹی سے اس وقت تک کوئی فتوی جاری نہ ہو گا جب تک اس کے اراکین کی مطلق اکثریت اس پر متفق نہ ہو اور فتوی پر بحث کرنے والے علماء کی تعداد کم از کم تین ہو۔ اور اگراختلاف کی صورت میں اراکین کی تعداد دونوں جانب برابر ہو تو صدر مجلس کی رائے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ‘‘ شیخ أحمد بن عبد الرزاق الدویش حفظہ اللہ کمیٹی کے فتوی جاری کرنے کے منہج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وأحب أن أذکر القاری بمنھج اللجنۃ الذی أشرت إلیہ فی المقدمۃ وھو اختیار الرأی الذی یسندہ الدلیل دون التقید بمذھب معین أو رأی عالم مخصوص۔ ۔ ۔ وقد أوضحت اللجنۃ ھذا المنھج بالإجابۃ علی السؤال الثالث من الفتوی رقم(۹۵۸۰)وھذا نص جوابھا:(اللجنۃ إنما تفتی بما یظھر لھا من الأدلۃ الشرعیۃ سواء وافق المذاھب الأربعۃ المعروفۃ أو وافق أحدھا ولا تتقید بمذھب معین)۔ ولا شک أن الواجب بیان الحق‘ والحق ھو ما یسندہ الدلیل من الکتاب والسنۃ‘ وما یرجع إلیھما۔ ‘‘[3] ’’میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ یہاں کمیٹی کے اس منہج کا تذکرہ کروں جس کی طرف میں مقدمہ میں اشارہ کر چکا ہوں۔ کمیٹی کا منہج بغیر کسی معین مذہب اور مخصوص عالم کی رائے کی پابندی کے دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کو اختیار کرنا ہے۔ ۔ ۔ کمیٹی نے اپنا یہ منہج فتوی نمبر ۹۵۸۰ کے تیسرے سوال کے ذیل میں واضح کیا ہے۔ کمیٹی کا جواب یہ تھا: کمیٹی اس کے مطابق فتوی جاری کرے گی جو دلائل شرعیہ سے ثابت ہو گا‘ چاہے وہ معروف مذاہب أربعہ کے موافق ہو یا ان میں سے کسی ایک کے‘ اور کمیٹی کسی معین مذہب کی پابندی نہیں کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اصل شرعی ذمہ داری حق کا بیان ہے اور حق وہ ہے جس کی طرف قرآن وسنت رہنمائی فرمائیں۔ ‘‘ فتاوی کی ترتیب و تالیف کا منہج کمیٹی کے فتاوی کے اب تک دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ۲۶ جلدوں اور دوسرا ۶ جلدوں پر مشتمل ہے۔ شیخ أحمد بن عبد
Flag Counter