تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ پوری بحث نہایت ہی سنجیدہ اور ٹھنڈے ماحول میں حق اور سچائی کو حاصل کرنے کے جذبہ سے باہمی احترام کی رعایت کے ساتھ ہوتی ہے اور اختلاف رائے کی وجہ سے کبھی کوئی ناخوشگواری پیدا نہیں ہوتی۔ اس موقع سے صورت مسئلہ کو واضح کرنے کی ذمہ داری ماہرین کودی جاتی ہے اور اسی زیر بحث موضوع کی مناسبت سے چند ماہرین بھی سیمینار میں شریک ہوتے ہیں ' انھیں حکم شرعی کے بارے میں اظہار خیال کی اجازت نہیں ہوتی' کیونکہ یہ علماء اور ارباب افتاء کا حق ہے۔ ‘‘[1]
چھٹا مرحلہ
شرکائے سیمینار کے اظہار خیال کے بعد ایک ذیلی کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو ان آراء کے اتفاقی اور اختلافی پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے اور باہمی اتفاق رائے سے طے ہونے والی جزئیات کو مرتب کرتی ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’بحث مکمل ہونے کے بعد اس مسئلہ پر تجویز مرتب کرنے کے لیے ایک سب کمیٹی بنا دی جاتی ہے' اس کمیٹی کے انتخاب میں اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ یا تو انھوں نے اس موضوع پر بہتر مقالہ لکھا ہو یا نمایاں طور پر بحث میں حصہ لیا ہویا ان کو فتوی نویسی کا قدیم تجربہ ہو' اگر بحث کے دوران اتفاق رائے نہیں ہو سکا تو کمیٹی میں دونوں آراء کے حامل نمائندہ افراد کو شامل کیا جاتا ہے' اب یہ کمیٹی مقالات اور بحث کے دوران آنے والے نکات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید تبادلہ خیال کے بعد تجویز کو سیمینار کے مندوبین کی عمومی مجلس میں پیش کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس مرحلہ میں جزوی ترمیمات کی جاتی ہیں ' نیز سب کمیٹی کی مرتب کی ہوئی تجویز لوگوں پر مسلط نہیں کی جاتی' جس تجویز پر اتفاق ہو ا ہے اسے متفقہ حیثیت سے ذکر کیا جاتا ہے' جس میں شرکاء کی غالب ترین اکثریت کی ایک رائے ہو اور ایک دو اشخاص کو اختلاف ہو' ان میں پہلی رائے کا بحثیت تجویز ذکر کرتے ہوئے اختلاف رکھنے والے حضرات کے نام اور نقطہ نظر کے حاملین کی مناسب تعداد ہوتو تجویز میں اختلاف رائے کا ذکر کرتے ہوئے دونوں نقاط ِ نظر کو مساویانہ حیثیت میں بیان کیا جاتا ہے اور ہر رائے کے قائلین میں معروف ' نمایاں اور اہم شخصیتوں کا بھی ذکر دیا جاتاہے' اورجس طرح تجاویز سیمینار میں پیش کی جاتی ہیں بعینہ اسی طرح اسے طبع کیا جاتا ہے۔ یہ ہے اکیڈمی کا وہ محتاط' منصفانہ اور شورائی طریقہ غور و فکر جو احکام شرعیہ کے حل کرنے میں اختیار کیا جاتا ہے' اسی لیے ہمیشہ اس اکیڈمی کو اکابر علماء ہند کی شفقت و عنایت حاصل رہی ہے۔ ‘‘ [2]
اس وقت دنیائے عالم اسلام کی اکثر مجمعات ' چاہے وہ مجمع البحوث الإسلامیۃہو یا ہیئۃ کبار العلمائ' المجمع الفقھی الإسلامی ہو یا یورپین کونسل برائے إفتاء و تحقیق' ان سب کا منہج تحقیق و افتاء یہی ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کے دائرے میں محدود رہتے ہوئے اجتماعی اجتہاد نہیں کرتے بلکہ صحابہ رحمہم اللہ ' تابعین رحمہم اللہ اور جمیع فقہاء کی آراء کو فقہ اسلامی شمار کرتے ہوئے اس سے مساوی طور پر استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان مجمعات کے فتاوی کو ہم 'فقہ اسلامی' کے فتاوی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ فقہ اکیڈمی' انڈیا کے اجتماعی فیصلوں 'جدید فقہی مباحث 'کی روشنی میں یہ صورت حال تاحال مخدوش نظر آتی ہے۔ وہاں اجتماعی اجتہاد ایک مخصوص فقہی مذہب کے دائرے میں ہی ہو رہا ہے۔ بہر حال مجاہد الاسلام قاسمی حفظہ اللہ کا یہ بھی بہت بڑ ا امتیاز ہے کہ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے تقلیدی جمود میں ' کہ جہاں ہر طرف'اجتہاد کا دروازہ بند ہے' کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ' ایک مخصوص مذہب میں ہی سہی لیکن اجتماعی اجتہاد کا ایک ادارہ تو قائم کیا اور اس پر بھی مستزاد حنفی طبقہ میں تلفیق بین المذاہب کی اہمیت و ضرورت کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے خیال میں فقہ اکیڈمی کو تلفیق بین المذاہب کے بعد إفتاء و اجتہاد کے عالمی منہج یعنی فقہ اسلامی سے مساوی استفادے کی طرف آنا چاہیے اور حنفی ' اہل حدیث تعصب' فرقہ واریت ' ردعمل اور مخاصمت سے بالا تر ہو کر عالم اسلام کی بقیہ مجمعات کی مانند 'فقہ اسلامی'کی تدوین کی طرف ایک قدم بڑھانا چاہیے۔
٭٭٭
|