Maktaba Wahhabi

399 - 368
بناپر یہ حکم اس سے مماثل واقعہ میں دیا گیاتھا۔ ج۔ استنباط و اجتہاد‘ یعنی شریعت کے بیان کردہ وسیع اصولوں کو جزوی مسائل و معاملات پر منطبق کرنا اور نصوص کے اشارات‘ دلالتوں اور اقتضاء ات کو سمجھ کر یہ معلوم کرنا کہ شارع ہماری زندگی کے معاملات کو کسی شکل میں ڈھالتا ہے۔ د۔ جن معاملات میں شارع نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے ان میں اسلام کے وسیع مقاصد اور مصالح کو ملحوظ رکھ کرایسے قوانین بنانا جوضرورت کو پورا کر سکیں اور ساتھ ساتھ اسلام کے مجموعی نظام کی روح اور اس کے مزاج کے خلاف بھی نہ ہوں۔ اس چیز کو فقہاء نے ’’مصالح مرسلہ‘‘ اور ’’استحسان‘‘ وغیرہ ناموں سے موسوم کیاہے۔ ‘‘[1] مقتدر شوری کے انتخاب کاطریقہ کار شوری کے دائرہ کار کے بعد ایک اہم بحث اس کے طریقہ انتخاب کی ہے۔ اکثر و بیشتر علماء و مفکرین کا کہنایہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں شوری کے اراکین کی صفات تو متعین کر دی گئی ہیں لیکن ان کے انتخاب کا کوئی خاص طریقہ لازم نہیں کیا گیا ہے بلکہ حالات و زمانے کی رعایت رکھتے ہوئے کسی بھی طریقے سے ان کا انتخاب ہو سکتاہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لم یحدد الإسلام طریقۃ معینۃ للشوری‘ تارکاً للمسلمین اختیار ما یرونہ مناسباً لظروف عصرھم‘ لأن الإسلام صالح لکل زمان ومکان‘ وھو حریص علی تحقیق الھدف والنتیجۃ‘ وإن تعددت الوسیلۃ أو الأسلوب۔ ‘‘[2] ’’ اسلام نے شوری کے انتخاب کا کوئی معین طریقہ کار مقرر نہیں کیاہے اور اس کے انتخاب کے طریقہ کار کو مسلمانوں پر چھوڑ دیاہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات کے موافق کوئی طریقہ اختیار کر لیں۔ کیونکہ اسلام زمانے اور جگہ کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اسلام کا اصل مقصودہدف اور نتیجے کا حصول ہے ‘ اگرچہ اس کے لیے وسائل اور اسلوب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘‘ ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی حفظہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [3] مولانامودودی رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلے میں یہی کچھ کہاہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتا ہے اس میں ایک مجلس قانون ساز(Legislature)کی موجودگی ضروری ہے جو مسلم عوام کے معتمد علیہ نمائندوں پر مشتمل ہواور جن کے اجماع یا اکثریت کے فیصلے دار الاسلام میں قانون کی حیثیت سے نافذ ہوں۔ اس مجلس(Legislature)کی ترکیب‘ اس کے کام کا ضابطہ‘ اور اس کے ارکان کے انتخاب کا طریقہ اسلام میں مقرر نہیں کیا گیاہے‘ اس لیے ہر زمانے کے حالات و ضروریات کے لحاظ سے اس کی الگ شکلیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ ‘‘[4] مقتدر شوری کے انتخاب کے مروجہ و معروف طریقے ہمارے ہاں اس وقت شوری کے انتخاب کے د ومعروف طریقے رائج ہیں۔ ان میں سے ایک طریقے کو تعیین کا طریقہ کہتے ہیں جبکہ دوسرے کو انتخاب کا طریقہ۔ ذیل میں ہم ان دونوں طریقوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کر رہے ہیں۔ تعیین کا طریقہ اس طریقے میں حاکم وقت یاخلیفہ یا أمیر المؤمنین کی طرف سے مخصوص علمی و دینی صفات کے حامل افراد کو شوری کی رکنیت کے لیے براہ
Flag Counter