فصل دوم
اجتماعی اجتہاد بذریعہ شوری
اجتماعی اجتہاد بذریعہ شوری کا تصور ایک قدیم تصور ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں مختلف تدبیری أمور میں اکثر و بیشتر مسلمانوں سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قائم رکھااور شیخین کے دور میں تو بالخصوص فقہاء صحابہ کی ایک ایسی مجلس مدینہ میں موجود تھی ‘ جن سے حضرت أبو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نئے مسائل میں مشاورت کرنے کے بعد کوئی فیصلہ جاری کرتے تھے۔
شوری کا لغوی مفہوم
شوری کے لفظ کا مادہ ’ش۔ و۔ ر‘ہے۔ اکثر لغویین نے اس کو باب افعال میں ’أشار علیہ‘سے مشتق اسم قرار دیاہے۔ بعض اہل لغت کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہ لفظ باب تفاعل یعنی’تشاور‘سے مشتق ہے۔ پہلی رائے زیادہ معرو ف ہے۔ علامہ محمد مرتضی الزبیدی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۰۵ھ اس لفظ کی لغوی تحقیق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ شارالعسل یشورہ شوراً بالفتح وشیاراً وشیارۃًبکسرھما ومشاراً ومشارۃً بفتحمھا: استخرجہ من الوقبۃ واجتناہ من خلایاہ ومواضعہ۔ ۔ ۔ وأشار علیہ بکذا: أمرہ بہ وھی الشوری بالضم۔ ۔ ۔ والمشورۃ بضم الشین مفعلۃ ولا یکون مفعولۃ۔ ۔ ۔ وقال الفراء؛ المشورۃ أصلھا مشورۃ ثم نقلت إلی مشورۃ لخفتھا۔ وقال اللیث: المشورۃ مفعلۃ اشتق من الإشارۃ ویقال: مشورۃ۔ واستشار: طلب منہ المشورۃ۔ ‘‘[1]
’’اہل عرب ’شار العسل‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا معنی ہے :اس نے شہد کو اس کے چھتوں اور اس کے پائے جانے کی جگہوں سے نکالا۔ اس کا مضارع باب ’نصر‘ سے ’یشور‘آتا ہے۔ اس کا مصدر فتحہ کے ساتھ یا تو ’شوراً‘ہے یا پھر کسرہ کے ساتھ’مشاراً‘ اور ’شیارۃ‘ ہے۔ اسی طرح اس کا مصدر فتحہ کے ساتھ’مشاراً‘ اور ’مشارۃ‘ بھی آتا ہے۔ ۔ ۔ باب افعال سے ’أشار علیہ بکذا‘ کا معنی ہے اس نے اسے فلاں چیز کا حکم دیااور اسی سے لفظ ’شوری‘ مشتق ہے جو کہ ضمہ کے ساتھ ہے۔ ۔ ۔ ’المشورۃ‘ شین کے ضمہ کے ساتھ ’مفعلۃ‘ کا وزن ہے نہ کہ’ مفعولۃ‘کا۔ ۔ ۔ فراء کا کہنا ہے کہ’مَشْورۃ‘ کی أصل’مَشُورۃ‘ ہے۔ بعد میں اس کی تخفیف کی غرض سے’مَشورۃ‘ معروف ہو گیا۔ لیث نے کہا ہے: مَشْوَرَۃ ’مفعلۃ‘کے وزن پر ’اشارۃ‘ یعنی باب افعال کے مصدر سے مشتق ہے۔ اس کو’مَشُوْرَۃ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ’استشار‘ کا معنی کسی سے مشورہ طلب کرنا ہے۔ ‘‘
امام خلیل بن احمدالفراہیدی رحمہ اللہ متوفی ۱۷۵ھ کا کہنا ہے کہ’مشورۃ‘ کا لفظ بھی شوری کی طرح باب افعال ہی سے نکلا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’ والمشورۃ مفعلۃ اشتق من الإشارۃ أشرت علیھم بکذا و یقال: مشورۃ۔ ‘‘[2]
’’ ’مَشْوَرَۃ‘ کا وزن’مفعلۃ‘ہے اور یہ بھی باب افعال کے مصدر سے مشتق ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں :’أشرت علیھم بکذا‘اور اس کو ’مَشُوْرَۃ‘ بھی کہتے ہیں۔ ‘‘
علامہ ابو نصر الجوہری رحمہ اللہ متوفی ۳۹۸ھ لکھتے ہیں :
’’ والمشورۃ: الشوری و کذلک المشورۃ بضم الشین۔ تقول منہ: شاورتہ فی الأمر واستشرتہ
|