Maktaba Wahhabi

500 - 368
فصل پنجم یورپی مجلس برائے إفتاء و تحقیق دنیا کے تقریبا ہر حصے میں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ میں آباد ہے۔ اس وقت دنیا میں ساٹھ کے قریب مسلمان ریاستیں موجود ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک یا خطے ایسے بھی ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور حکومت غیر مسلموں کے پاس ہے مثلا ًانڈیا' برطانیہ' امریکہ' جرمنی ' چین' رو س ' کینیڈااور فرانس وغیرہ۔ گزشتہ صدی میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے روزگار اور اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یورپین ممالک کی طرف ہجرت کی ہے اور ان میں سے بھی بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی کہ جنہوں نے وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی ہے۔ غیر مسلم معاشروں میں رہائش پذیر ان مسلم اقلیتوں کو جب مختلف قسم کے سماجی ' معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو علماء میں شدت سے یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ان معاشروں میں ایسے ادارے وجود میں آئیں جو مسلمانوں کو ان کے مختلف مسائل میں شرعی رہنمائی فراہم کریں۔ علماء کی کوششوں کے نتیجے میں چند ایسے ادارے قائم کیے گئے ہیں جو غیر مسلم معاشروں میں مسلمانوں کے لیے فقہی مسائل میں ان کے معاشروں کے تناظر میں فتاوی جاری کرتے ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا' شمالی امریکی فقہ کونسل' فقہائے شریعت اسمبلی امریکہ اور یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق قابل ذکر ہیں۔ مجلس کا تاریخی پس منظر یورپ میں مسلمانوں کی پہلے پہل موجودگی دوسری صدی ہجر ی میں بتلائی جاتی ہے۔ مؤرخین نے یورپ میں مسلمانوں کی اقامت کو چار مراحل میں تقسیم کیا ہے جن میں سے آخر ی مرحلہ وہ ہے کہ جس سے اب ہم گزر رہے ہیں۔ اس مرحلے میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کاروبار' روزگار اور اعلی تعلیم کے لیے یورپ کے مختلف ممالک میں سکونت اختیار کی۔ ان مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے مقامی علماء کی چھوٹی چھوٹی مختلف تنظیمیں اور اسلامک سنٹرز وجود میں آنا شروع ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ان اداروں اور سنٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوتاچلا گیااور اب ان اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کئی تنظیمیں وجود میں آگئیں ' ان میں سے ایک'اتحاد المنظمات الإسلامیۃ فی أوروبا'قابل ذکر ہے۔ یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق اسی اتحاد کے مختلف سیمیناروں اور مجالس کا نتیجہ ہے۔ جناب تنویر احمد صاحب مجلس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’رفتہ رفتہ جب انہوں نے یورپی ملکوں کی مستقل شہریت اختیار کر لی اور وہ خود اور ان کی اولاد مقامی معاشروں میں رچ بس گئی تو انہوں نے اپنے مسائل اور معاملات کے حوالے سے منظم ہونے پر توجہ دی۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں وجود میں آئیں جن کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیااور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ان تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پرلانے کے لیے کچھ اور تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ‘‘اتحاد المنظمات الإسلامیۃ فی أوروبا'' کی تأسیس بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جو یکم دسمبر ١٨٨٩ء کو قائم کی گئی تھی۔ اب تک ٢٦ یورپی ممالک کی اسلامی تنظیمیں اس کی رکن بن چکی ہیں۔ اس کے چند مرکزی شعبوں میں ایک یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق ہے۔ اتحاد المنظمات کے زیر اہتمام تقریباًگیارہ سال پہلے دو اجلاس منعقد کیے گئے جن میں سے کئی جید علماء کو جو یورپ میں مقیم تھے ' یا وہاں کی مسلم اقلیت کے مسائل میں دلچسپی رکھتے تھے ' مدعو کیا گیا۔ ان علماء میں شیخ مصطفی الزرقا' شیخ عبد الفتاح أبو غدۃ' ڈاکٹر سید الدرش' شیخ مناع القطان' شیخ عبد اللہ بن بیہ' شیخ یوسف القرضاوی' شیخ محمد عجلان' ڈاکٹر ناصر المیمان' شیخ فیصل مولوی اور ڈاکٹر عصام البشیرj کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان مجالس میں یورپ اور بالخصوص فرانس میں مقیم مسلمانوں کے جن فقہی مسائل پر سیرحاصل بحث کی گئی ' ان میں سے چند ایک یہ تھے...ان مجالس کے مباحثوں اور فیصلوں کی روشنی میں کوئی دستاویز تو سامنے نہیں آئی' تاہم بعض اہل علم نے ان مباحث سے استفادہ کیاہے۔ مثال کے طور پر طارق رمضان نے اپنی کتاب میں یورپی شہریت کے حصول کے بارے میں ان مباحث سے
Flag Counter