Maktaba Wahhabi

389 - 368
قرآن میں شوری کا حکم قرآن مجید میں دو آیات اس لحاظ سے بہت ہی اہم ہیں کہ ان میں شوریکا حکم دیا گیا ہے۔ ایک آیت مکی سورت کی ہے اور دوسری مدنی سورت میں ہے۔ پہلے ہم مکی سورت کی آیت کو بیان کرتے ہیں کیونکہ زمانہ نزول کے اعتبار سے وہ مقدم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ﴾[1] ’’اور ان کا کام آپس میں مشاورت(سے طے ہوتا)ہے۔ ‘‘ سورہ شوری ایک مکی سورت ہے اور مکہ میں بھی اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے اس صفت کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے کہ وہ اپنے باہمی معاملات کو مشورے سے طے کرتے ہیں۔ قرآن کی ایک اور آیت میں امور سلطنت میں مسلمانوں کی باہمی مشاورت کو لازم قرار دیا گیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ﴾[2] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کاموں میں مشورہ کریں۔ ‘‘ یہ آیت مبارکہ مدنی ہے اور غزوہ أحد کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ أحد سے پہلے بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف امور میں مشورہ طلب کرتے تھے اور غزوہ أحد کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ طلب کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی اکثریت ہی کے مشورے کا احترام کرتے ہوئے مدینہ سے باہر نکل کر کفار مکہ سے جنگ لڑنے کا ارادہ کیا‘اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے یہی تھی کہ مدینہ میں رہتے ہوئے جنگ لڑئی جائے۔ اس جنگ میں بظاہر مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس لیے اس بات کا امکان موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لینا بند کر دیتے۔ اس احتمال کے پیش نظر آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کے عمل کو جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سلف کے تین اقوال نقل فرمائے ہیں۔ 1۔ پہلے قول کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجنگی تدابیر اور دشمن سے ملاقات کے وقت اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مشورے سے اگرچہ غنی اور بے نیاز تھے‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی براہ راست اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل تھی لیکن اہل ایمان کی تالیف قلب کے لیے آپ کو یہ حکم دیا گیا۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادۃ رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ أمر اللّٰہ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یشاور أصحابہ فی الأمور وھو یأتیہ وحی السماء‘ لأنہ أطیب لأنفس القوم وأن القوم إذا شاور بعضھم بعضاً وأرادوا بذلک وجہ اﷲ‘ عزم لھم علی أرشدہ۔ ‘‘[3] ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف امور میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کا حکم دیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آسمان سے وحی بھی آتی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرناان کے دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث تھا۔ اسی طرح جب کسی قوم کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں اور ان کا مقصود اللہ کی رضا حاصل کرناہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنی بہترین رہنمائی عطا فرماتے ہیں۔ ‘‘ اسی سے ملتی جلتی آراء کا اظہار حضرت ربیع رحمہ اللہ اور ابن اسحاق رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔ [4]
Flag Counter