لیکن اس بات کومان بھی لیاجائے کہ اقبال مرحوم نے یہ خطبات اپنے لیے لکھے تھے تو یہ بھی ایک ألمیہ ہے کہ بعض اوقات خود اقبال مرحوم کو بھی ان خطبات کی بعض عبارتوں کا مفہوم سمجھ نہ آتا تھا۔ نذیر نیازی نے جب اقبال مرحوم سے خطبات کے بعض مقامات کے مفاہیم سمجھنا چاہے تو اقبال مرحوم نے ان کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ معلوم نہیں کس وجدانی کیفیت میں ان سے یہ عبارتیں صادر ہوئیں اور ان کو سمجھنے کے لیے بھی اسی وجدانی کیفیت یا حال میں واپسی ضروری ہے۔ ماہنامہ’ ساحل ‘کے مقالہ نگار لکھتے ہیں :
’’ خود علامہ اقبال خطبات کے بہت سے مقامات کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ نذیرنیازی کے حوالے سے اسرار سہاروی نے لکھا ہے کہ جب نذیر نیازی نے اقبال رحمہ اللہ سے بعض مقامات کے مطالب سمجھنا چاہے تو حضرت علامہ نے فرمایا : نذیر یہ مقامات وہ ہیں جن پر خود غور و فکر کرتا ہوں تو ذہن پر واضح نہیں ہوتے، نامعلوم کسی وجدانہ کیفیت میں ‘میں نے یہ باتیں لکھیں۔ یہ تمام مقامات وجدانی ہیں، فکری نہیں، وجدان کے ذریعے سے ہی گرفت میں آسکتے ہیں، انھیں پڑھتے رہو کبھی تم پر بھی اگر میری جیسی وجدانی کیفیت طاری ہوئی تو کشف کے طور پر ظاہر ہوجائیں گے لیکن تم محسوس کرسکو گے ان کا اظہار یا ابلاغ نہ کرسکو گے۔ یہ بالکل معرفت کا سا معاملہ ہے۔ نذیر نیازی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: تو حضرات وہ وجدان مجھے ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔ ‘‘[1]
’خطبات اقبال‘ ڈاکٹر اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاء کے درمیانی مراحل
خطبات اقبال درحقیقت اقبال مرحوم کے فکری ارتقاء کے مختلف مراحل ہیں اور ان کو اقبال کی آخری فکر سمجھنا درست نہیں ہے۔ لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ متجددین کا ایک طبقہ اقبال مرحوم کے خطبات کو ان کی پختہ فکر اور آخری رائے کے طور پر پیش کرتاہے۔ یہ حضرات ان خطبات میں موجود غلطیوں پر اپنے فکر کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کی نسبت اقبال مرحوم سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ایسے ہی افراد کے بارے میں ‘ جواقبال مرحوم کے فکری ارتقاء کے مختلف مراحل کو مد نظر رکھے بغیر ان کے کلام سے استدال کرتے ہیں ‘ فرماتے ہیں :
’’آج کل ڈاکٹر اقبال کے نام سے متعدد رسائل نکل رہے ہیں اور مجلسیں قائم ہو رہی ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اشخاص بھی بتدریج ترقی کر کے منزلِ مقصود کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے خیالات بھی اسی تدریج کے ساتھ کمال کے مرتبے کو پہنچتے ہیں۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ہر شئے جو ڈاکٹر اقبال کے کلام کے فائل میں نکل آئے وہ ان کی تعلیم ہے تو سراسر غلط ہوگا، بلکہ وہی چیزیں ان کی تعلیمات کے عناصر ہوں گی جن پر ان کے قلم نے ایک مدت کی تلاش کے بعد آرام کی سانس لی اور جس منزل پر پہنچ کر ان کے خیال کے مسافر نے اقامت اختیار کی۔ اس بنا پر آج کل رسالوں کے کارخانوں میں جو مال تیار ہوتا ہے اور اس پر ڈاکٹر اقبال کے نام کامارکہ لگا کر جو دکان داری کی جا رہی ہے، وہ ہمت افزائی کے لائق نہیں۔ کبھی فرصت سے سن لینا بڑی ہے داستان میری۔ ‘‘[2]
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ نے خطبات اقبال کو ڈاکٹر اقبال کے غور فکر کے درمیانی مراحل قرار دیا ہے۔ لہذا ان کے بقول خطبات میں پیش کردہ ڈاکٹر اقبال کے نظریات کو ان کے عقائد نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ خطبات اقبال کے بعد کی اقبال کی شاعری کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال نے اپنے خطبات کے بہت سے نظریات سے رجوع کر لیا تھا۔ مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اس سلسلے میں بحث شروع کرنے سے قبل یہ امر واضح کرناضروری ہے کہ تحریک پاکستان کے حوالے سے علامہ اقبال کا فکری مقام بلاشبہ مسلم ہے اور اس تناظر میں فکر اقبال کی اپنی جگہ اہمیت بھی بجا ہے لیکن علامہ کی اس حیثیت کا یہ لازمہ نہیں کہ انہیں أئمہ سلف کے مقابل لا کھڑا کیا جائے اور پھر اس تقابل کے نتیجے میں أئمہ سلف کو دور ملوکیت کا پروردہ جبکہ اقبال کو ’اسلامی نشاۃ ثانیہ‘ کا ’حدی خوان‘ قرار دیا جائے جیسا کہ اقبال کے بعض مداحوں کا شیوہ ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ أئمہ سلف اور اقبال کے میدان ہائے کار الگ الگ تھے اور انہیں پیش
|