کا جواب مرتب کیا بھی گیا تو ان میں بھی یا تو صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اقبال اکیڈمی کے مفکرین ’ساحل‘ کے تو خلاف ہوتے ہیں لیکن اقبا ل مرحوم کے دفاع میں باہم متضاد بیانات کے حامل ہوتے ہیں یا پھر کچھ مفکرین’ ساحل‘ کے اعتراضات کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے ان کی تائید کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ پھر بھی’ ساحل‘ کے مخالف ہی ہوتے ہیں اور پھر’ساحل‘ کے محققین ان مفکرین کے جواب میں جواب الجواب کی طویل مشق کرتے نظر آتے ہیں۔
ماہنامہ’ ساحل‘ میں اقبال مرحوم کے خطبات پر جو مفصل نقد پیش کی گئی ہے‘ اس میں مرکزی مضمون اقبال مرحوم کے استاذ جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے جناب ڈاکٹر غلام محمد کو املاء کروایا تھا‘ جسے ان کی وفات کی بعد حال ہی میں پہلی دفعہ ماہنامہ ’ساحل‘ نے’امالی غلام محمد‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اقبال اکیڈمی کے بعض مفکرین نے ان امالی کی جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی طرف نسبت کو مشکوک قرار دیا ہے لیکن ان کے پاس اپنے شک کے ثبوت میں کوئی واضح و صریح دلیل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں امالی کے بارے میں ان مفکرین کے بیانات بھی باہم متضاد ہیں۔ ماہنامہ ساحل کے مقاملہ نگار لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر وحید عشرت انہیں احمدجاوید کے امالی قرار دیتے ہیں۔ جاوید احمد انہیں غلام محمد کے امالی تسلیم کرتے ہیں سہیل عمر کا پہلا موقف یہ تھا کہ’’ مجھے اطمینان ہوا کہ میرے سوا اورلوگ بھی خطبات کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں حیر ت ہوئی کہ اس زمانے میں بھی لوگ اسی طرح سوچ سکتے تھے‘‘ اب ان کا موقف ہے کہ یہ امالی مرتب کی اختراع ہے۔ ‘‘[1]
ان امالی کی نسبت اگر سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی طرف ثابت نہ بھی ہو سکے تو پھر بھی ان امالی میں خطبات پر کیے گئے نقد کی قدر و قیمت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ امالی کسی کے بھی ہوں ‘ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ پس اقبال اکیڈمی کے مفکرین کی طرف سے اصل زور ان امالی کی نسبت کو مشکوک بنانے کی بجائے ان میں خطبات اقبال کے بارے میں اٹھائے گئے اعتراضات اور اشکالات کے جواب میں صرف ہونا چاہیے تھا۔ سہ ماہی ’اجتہاد‘ کے مدیر لکھتے ہیں :
’’اس سے قطع نظر کہ اس تحریر میں مذکور آراء سید سلیمان ندوی کی ہیں یا نہیں ‘ یہ تحریر اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں علامہ اقبال کے خطبہ اجتہاد میں مذکور مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے مراجع و مصادر پر بھی بہت قیمتی نقد موجود ہے۔ ‘‘[2]
اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ : مختلف مکاتب فکر کے علماء کی نظر میں
پاکستان کے علمائے دیوبند اور اہل الحدیث علماء نے ڈاکٹر اقبال مرحوم کے نقطہ نظر کی بڑی شد و مد سے مخالفت کی ہے۔ معروف اہل حدیث عالم دین مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’بعض لوگ پارلیمنٹ کو یہ حق دینا چاہتے ہیں ‘ پچھلے دنوں علامہ اقبال کے حوالے سے اس تجویز کو بڑا اچھالا گیا تھاکہ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کوحاصل ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ایک بالکل فضول تجویز ہے۔ ‘‘[3]
اسی طرح پاکستان میں معروف حنفی عالم دینے مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ ڈاکٹر اقبال کے نظریے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ وھناک فکرۃ خاطئۃ أخری اقترحت فی عدۃ کتابات أن یفوض الاجتھاد إلی البارلیمان۔ ۔ ۔ فیقول أصحاب ھذہ الفکرۃ أن ما یتفق علیہ البارلیمان ھو أمثل حل لأیۃ قضیۃ جدیدۃ لأنہ ینبع من رجال انتخبھم الشعب لھذا الغرض۔ وإن ھذہ الفکرۃ مبنیۃ علی الجھل أو التجاھل عن معنی الاجتھاد ومقتضیاتہ الحقیقیۃ۔ إن الاجتھاد فی الأمر الشرعیۃ لیس تحکیماً للعلقل المجرد و
|