Maktaba Wahhabi

394 - 368
والی قراردادوں میں شامل ہو گی۔ ۲۔ امت کے ان نمائندہ اہل حل و عقد کی مشاورت کہ جن کو امت نے اپنے دستوری نظام یا بنیادی قوانین کو وضع کرنے یا ولی الأمر اور صاحب اقتدار کی بیعت کی شرائط کی تحدید کے لیے مقرر کیا ہو۔ جب تمام یا اکثراہل حل و عقد کا کسی قرارداد پر اتفاق ہو جائے گا تویہ ایک ایسی فقہی اور دستوری شوری ہو گی کہ جس کا نفاذ لازم ہے کیونکہ یہ شوری بنیادی قوانین یا دستور وضع کرے گی۔ ۔ ۔ ۳۔ مجتہدین اور اہل علم کی کسی ایسے فقہی حکم کو مستنبط کرنے میں کہ جس کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو‘قرار داد منظور کرنا۔ اگر تو یہ قرارداد مجتہدین کے اتفاق سے طے پاتی ہے اور امت بھی اس پر متفق ہوجاتی ہے تو یہ ایک لازم فقہی حکم ہو گاکیونکہ یہی اجماع ہے۔ ‘‘ پانچویں قسم سے مراد ایسی مجلس شوری ہے جو عامۃ الناس پر مشتمل ہو یاوہ انتخابات کے بغیر وجود میں آئی ہو مثلاً حاکم وقت نے اہل فن‘علماء‘ فقہاء ‘ حکماء اور ماہرین کے ذاتی انتخاب سے ایک مجلس شوری قائم کی ہو یا کسی معاشرے میں علماء‘ فقہاء ‘صلحاء‘مفکرین اور ارباب حل و عقدکی ایک جماعت اپنی خدمات و صلاحیتوں کے نتیجے میں خود ہی نمایاں ہو گئی ہو اور حکومت وقت نے ان افراد کو سرکاری سطح پر ایک ادارے کی شکل میں بطور مجلس شوری جمع کردیا ہو۔ جبکہ چھٹی قسم سے مراد وہ افراد ہیں جو کسی ریاست میں بذریعہ انتخابات عوام الناس کے نمائندہ قرار پاتے ہیں۔ اب ان نمائندگان پر مشتمل ایک مجلس ‘ مجلس شوری کہلائی گی۔ ساتویں قسم کی مجلس شوری مجتہدین امت کی شوری ہے۔ تدبیری ‘ انتظامی‘ اجماعی اور مباح أمور میں پانچویں اور چھٹی قسم کی مجلس شوری کا حکم لازم ہو گا جبکہ مختلف فیہ اجتہادی مسائل میں اس شوری کے حکم کے لزوم یا عدم لزوم کے بارے میں ہم اس مقالے کے تیسرے باب میں مفصل بحث کر چکے ہیں۔ اجتماعی جتہاد بذریعہ شوری کے تین معروف أسالیب اجتماعی اجتہاد بذریعہ شوری کو ہم تین انواع میں تقسیم کر سکتے ہیں ‘ جو کہ درج ذیل ہیں : 1۔ پہلی قسم کی شوری تو وہ ہے جو کسی اسلامی ریاست میں پارلیمنٹ کی قائم مقام ہو۔ یعنی ایک ایسا سرکاری ادارہ جو کسی اسلامی ریاست میں اجتماعی اجتہاد اور قانون سازی دونوں کاموں کے لیے قائم کیا گیا ہو۔ وہ ادارہ اجتہاد بھی کرے گا اور اس کے پاس تقنین کا اختیار بھی ہوگا۔ اس ادارہ کوہم مقتدر شوری یا مقننہ کا نام دے سکتے ہیں جیسا کہ سعودی عرب کی مجلس شوری ہے۔ اس مجلس شوری کے ارکان کا تعین براہ راست بادشاہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان اراکین کی تعداد فی الحال تقریباً ۱۲۰ہے۔ یہ اراکین مختلف قسم کے انتظامی اور دنیوی مسائل میں بذریعہ اجتہاد قانون سازی کرتے ہیں۔ اس مجلس کے اراکین علماء‘ فقہاء‘ ماہرین فن اور شاہی خاندان سے متعلق أصحاب اقتدارہوتے ہیں۔ اگر اس شوری کا کام صرف خلیفہ یاامام کا انتخاب ہو توسلف کی اصطلاح میں اسے ’مجلس أہل حل و عقد‘ بھی کہتے ہیں ‘ جس پر ہم اگلی فصل میں بحث کریں گے۔ 2۔ شوری کی دوسری صورت علماء ‘ فقہاء اور ماہرین فن پر مشتمل ایک سرکاری ادارہ ہے کہ جس کا کام مختلف مسائل میں حکمران یا حکومت وقت کو دینی و شرعی رہنمائی فراہم کرنا ہو تاہے تاکہ حکمران اس کی بنیاد پر کوئی قانون سازی کر سکیں۔ اس کی مثال پاکستان میں ’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ ہے کہ جس کا کام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ایسی سفارشات پیش کرنا ہے کہ جن کی روشنی میں پاکستان کے عوام شرعی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ بعض اوقات اس قسم کے اداروں کی حیثیت کسی ملک میں سرکاری دار الافتاء کی بھی ہوتی ہے اور اس مجلس کے فتاوی کو سرکاری تائید حاصل ہوتی ہےجیسا کہ اسکی مثال سعودی عرب کی مجلس’ہیئۃ کبار العلماء‘ہے۔ اسے ہم سرکاری شوری کا نام دے رہے ہیں۔ 3۔ تیسری قسم کی شوری سے مراد وہ غیر سرکاری ادارہ ہے جو کسی ایک ملک یا براعظم یا عالم اسلام کی سطح پر اجتماعی اجتہاد کا فریضہ سر انجام دے رہا ہو۔ ملکی سطح پر اجتماعی اجتہاد کے ایسے شورائی ادارے کی مثال اسلامی فقہ اکیڈمی‘ انڈیا ہے۔ براعظم کی سطح پر اس کی مثال ’یورپین کونسل برائے افتاء و تحقیق‘ ہے جبکہ عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والے ایسے ادارے کی مثال’المجمع الفقہی الإسلامی‘ مکۃ
Flag Counter