الفقھیۃ غیر واضحۃ فیھا۔ ‘‘[1]
’’ہمارے فقہاء عام طور پر ’شوری‘ کی اصطلاح کو سیاسی نظام سے متعلق محدود کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں اوراس طرح اس لفظ کے معانی میں موجود فقہی جہت غیر واضح رہ جاتی ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وکثیرون من الکتاب والباحثین لایتکلمون عنھا إلا فی صدد نظام الحکم أو الدولۃ مما یفھم منہ أن موضوعھا ھو ’’دیمقراطیۃ الحکم‘‘ أی أنھا مقصورۃ علی القرارات الجماعیۃ المتعلقۃ بنظام الدولۃ أو الحکم۔ ‘‘[2]
’’اکثرو بیشتر مصنفین اور محققین ’شوری ‘کے بارے حکومتی یا ریاستی نظام کے ذیل میں بحث کرتے ہیں۔ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شوری کا اصل موضوع حکومتی مسائل میں مشاورت ہے یعنی’ شوری ‘کا لفظ ان اجتماعی قراردادوں میں محصور ہے جو ریاست یا حکومت کے نظام سے متعلق ہوں [حالانکہ ایسا نہیں ہے]۔ ‘‘
جیسا کہ ہم شوری کی اقسام میں بیان کر چکے ہیں کہ شوری کاتعلق صرف سیاسی نظام سے نہیں ہے بلکہ زندگی کے مختلف گوشوں میں شوری کا وجود مطلوب ہے لیکن أمر واقعہ یہی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا محققین نے بیان کیا ہے کہ اکثر و بیشتر قدیم و جدید علماء و فقہاء نے شوری کا تعلق سیاسی نظام سے جوڑا ہے۔ اس کی وجہ بظاہر یہی سمجھ میں آتی ہے کہ خلافت اسلامیہ میں خلیفہ وقت کی طرف سے مختلف ملکی امور میں باہمی مشاورت کی خاطر وزراء و مشیران کی جو اجتماعی مجلس تشکیل دی جاتی تھی یہی اس زمانے میں مجلس شوری کی نمایاں ترین صورت ہوتی تھی۔
دور نبوی اور دور خلافت میں شوری کا مفہوم
دور نبوی میں شوری سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم کی وہ جماعت تھی کہ جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم امور حرب‘سیاسی نظم‘ جنگی تدابیر اور حکمت عملی میں وقتاً فوقتاً مشورہ لیتے رہتے تھے۔ بعض اوقات یہ مشورہ دینی امور میں ہوتا تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کے طریقے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشور ہ کیاتھا۔ اسی طرح دور خلافت میں شوری سے مراد مدینہ میں مقیم وہ فقہائے صحابہ تھے کہ جن سے حضرت أبوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم ملکی‘ سیاسی ‘ جنگی‘انتظامی‘ معاشرتی‘اجتماعی اوردینی امور میں مشاورت فرماتے تھے۔ خلفائے راشدین کے دور میں فقہ اسلامی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ا س دور میں دنیوی امور کی طرح دینی معاملات میں فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اجتماعی مشاورت دور نبوی کی نسبت بہت زیادہ تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی باعث آسمانی رہنمائی کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس شوری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اجتماعی اجتہاد کو بعض اوقات خلیفہ وقت بطور قانون نافذ بھی کر دیتے تھے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرتے ہوئے نافذ کر دیا تھا۔
اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر خلیفہ وقت کی طرف سے کسی اجتماعی رائے کو بطور قانون نافذ کر دیا جاتا تو اس سے اختلاف کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور نہ کیا جاتا تھاجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت أبو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے سورۃ التوبہ کی ایک آیت کی تفسیر کے ذیل میں جب عام مجمعوں میں اس رائے کا اظہار کرنا شروع کیا کہ سونے و چاندی کو مطلقاً اپنے پاس رکھنا حرام اور ناجائز ہے اور یہ قرآن کی اصطلاح میں ’کنز‘ہے تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو مدینہ چھوڑنے کا حکم جاری فرمایالیکن انہیں اپنی رائے چھوڑنے پر مجبور نہ کیا۔ [3]
|