Maktaba Wahhabi

362 - 368
عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کی عملی صورتیں : ایک تجزیاتی مطالعہ فصل أول اجتماعی اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ پارلیمنٹ(Parliament)انگریزی زبان کا لفظ ہے اور یہ فرانسیسی لفظ 'parlement'سے بنا ہے جس کا معنی بولنا‘ بات کرنااورگفتگو کرنا ہے۔ پس پارلیمنٹ سے مراد مباحثہ یا مکالمہ ہے۔ فی زمانہ اس لفظ کا استعمال عموماًکسی خطہ ارضی میں قائم ایک ایسی مجلس یا ہیئت کے لیے ہوتا ہے جو عوام الناس کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہواور ریاست کے مسائل سے بحث کرتی ہو۔ بعض ممالک میں اس کو نیشنل اسمبلی(National Assembly)یا سینٹ(Senate)کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ معروف دائرۃ المعارف(Encyclopaedia)‘ وکی پیڈیا(Wiki Pedia)میں پارلیمنٹ کی درج ذیل تعریف بیان کی گئی ہے: ''A parliament is a legislature...It acquired its modern meaning as it came to be used for the body of people( in an institutional sense)who will meat to discuss matters of state ." [1] ’’ پارلیمنٹ سے مراد مقننہ یعنی مجلس قانون ساز ہے۔ ۔ ۔ جبکہ جدید معانی میں پارلیمنٹ سے مراد افراد کی ایک ایسی مجلس ہے جو کسی ریاست کے مسائل پر بحث کرنے کے لیے اکھٹی ہو۔ ‘‘ علامہ اقبال مرحوم(۱۸۷۷ء تا ۱۹۳۸ء)بر صغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم ایک مسلمان مفکر اور فلسفی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اقبال مرحوم ایک بہت بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ان کے افکار و نظریات ان کی شاعری اور نثر دونوں أسالیب میں موجود ہیں۔ جہاں تک ان کی شاعری کا معاملہ ہے تو انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی میں روح پھونک دی تھی۔ اقبال رحمہ اللہ کی شاعری نے عامۃ الناس کو ایمان و یقین کے حقیقی جذبے سے سرشار کیا‘ مایوسی کو ختم کیااور امت کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کیے۔ سید خالد جامعی حفظہ اللہ ‘ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کی مدح و تعریف میں یوں رطب اللسان ہوتے ہیں : ’’ واقعہ یہ ہے کہ ’’اقبال کی شاعری محض شاعری نہیں صُور اسرافیل اور نغمہ جبرئیل ہے۔ یہ شاعری اذان کی طرح مشرق و مغرب کی وادیوں میں، گونج رہی ہے۔ اس شاعری نے دلوں میں ایک ایسی آگ لگا دی ہے جو آج بھی بجھنے نہیں پاتی۔ اقبال کی شاعری مشرق ومغرب کی تمام اہم زبانوں کے سرچشموں سے صہبا کشید کرتے ہوئے لفظوں کا گلزار اور خوابوں کا چمن زار سجا دیتی ہے۔ ان کی شاعری کا آبگینہ قوس و قزح کے رنگوں کی طرح جگمگاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے فلک سے ستارے اتار کر شعروں کی قباء میں ٹانک دیے ہیں اور لفظوں میں سیماب کی تڑپ بھردی ہے۔ ‘‘[2] اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی ایک مفکرین اور علماء‘ اقبال کی شاعری کو الہامی شاعری کا درجہ دیتے ہیں۔ خالد جامعی حفظہ اللہ شاعر اقبال رحمہم اللہ کو ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا مرثیہ خواں اور امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا حدی خواں قرار دیتے ہیں۔ جامعی صاحب اقبال کی شاعری کی ہمہ جہتی صفات اور متنوع انوارات کابڑی جامعیت کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اقبال ملت اسلامیہ کے سب سے بڑے مرثیہ خواں اور اس کے احیاء و نشاۃ ثانیہ کے سب سے بڑے حدی خواں ہیں، مگر ان کی مرثیہ خوانی اضمحلال اور شکست کے بجائے حوصلہ، ولولہ، طنطنہ، شوکت اور جلال تخلیق کرتی ہے۔ ان کے اشعار پڑھ کر ایمان کی تجدید ہوتی ہے، دل شوق سفر پاتا ہے اور نگاہ ذوق نظر حاصل کرتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا محور و مرکز قرآن کریم ہے جس نے انسانوں کے اس عظیم الشان
Flag Counter