Maktaba Wahhabi

367 - 368
نے ترکی شاعر ضیاء کی نظم پڑھی تو آواز میں خاصا جوش پیدا ہوگیا‘‘۔ ‘‘[1] علامہ کے خطبات میں پیش کردہ افکار پر ان کی تکفیر کا معاملہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا۔ عرب علماء کی ایک جماعت نے بھی اقبال مرحوم کے افکار کو کفریہ قرار دیا۔ ماہنامہ ساحل کے مقالہ نگار لکھتے ہیں : ’’جامعہ ام القریٰ سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ محمد اقبال وموقفہ من الحضارۃ الغریبۃ… الدکتور خلیل الرحمان ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا جس کی بنیاد پر عرب علماء نے اقبال کے کفر کے فتوے دیے اور جاویداقبال کے بقول سعودی عرب میں ایک کانفرنس بھی علماء کی منعقد ہوئی۔ ‘‘[2] برصغیر پاک و ہند کے جلیل القدر علماء نے خطبات اقبال کو اسلام کے بنیادی اور اجماعی نظریات سے متصادم قرار دیااور خطبات کی اشاعت کو ناپسندفرمایا۔ سلیم احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’اقبال سے جن لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان میں مولانا اکبر الہ آبادی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، خواجہ حسن نظامی اور مولانا مودودی رحمہم اللہ جیسی جید شخصیتیں شامل ہیں۔ اختلافات کا یہ سلسلہ اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اخبار ’’جسارت‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگراساتذہ نے اقبال پر الحاد و زندقہ کے الزام لگائے ہیں اور سفارش کی ہے کہ اقبال کے خطبات کو نوجوانوں تک پہنچنے سے روکا جائے کیونکہ اس سے نئی نسل کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ رپورٹ ’’جسارت‘‘ میں ’’پرستارانِ اقبال کے لیے ایک لمحہ فکریہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ خود اقبال کا حال یہ تھا کہ بقول نذیر نیازی جیسے اقبالی کے، جب انھوں نے اقبال سے خطبات کے بعض مقامات کی وضاحت چاہی تو علامہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے کہ بعض اوقات میری کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ مجھے خود بھی نہیں معلوم ہوتا کہ میں کیا کہہ گیا ہوں۔ شاعری میں خدا کو بخیلی کا طعنہ دینا، ہرجائی کہنا، نیاز مند اور گرفتار آرزو کہنا یہ سب تو شاعرانہ باتیں تسلیم کی جاسکتی ہیں لیکن نثر میں مجذوب بن جانے کا کیا جواز ہے؟۔ ‘‘[3] جسٹس جاوید اقبال کے بیان کے مطابق خطبات کے اردو ترجمہ کی اشاعت میں تاخیر کی وجہ ہی یہی تھی کہ اقبال مرحوم کو پہلے سے ہی یہ اندیشہ تھا کہ ان خطبات کی اشاعت پر علماء کے حلقے کی طرف سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں : ’’اور تیسری بات یہ ہے کہ اس کتاب سے علماء بہت ناراض تھے بلکہ اس کا اردو ترجمہ کرنے میں بھی اگر تساہل ہوا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اگر اس کا اردو ترجمہ ہوا تو ممکن ہے علامہ اقبال پر علماء اعتراض کریں جیسے کہ یہ اکبر کی طرح کا کوئی دین ِ الہٰی یاکوئی نیا مذہب یا مذہب کی کوئی نئی تاویل پیش کرنے کی کوشش ہو۔ چنانچہ اس پر اعتراضات بھی ہوئے۔ ‘‘[4] اقبال مرحوم کے استاذ جناب سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کو خطبات کی اشاعت پسند نہ تھی۔ جسٹس جاوید اقبال فرماتے ہیں : ’’سلیمان ندوی کو خطبات کی اشاعت پسند نہ تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے کہا کہ اس کتاب کو شائع نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔ ‘‘[5] اگرچہ ماہرین اقبالیات اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ سید صاحب کو ’خطبات‘ کی اشاعت ناپسند تھی۔ مولاناأبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق بھی سید صاحب نے ’خطبات ‘ کی اشاعت کو ناپسند فرمایا تھا۔ مولاناأبو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ان کے مدراس کے خطبات جو انگریزی میں Reconstruction of Religions Thought in Islam کے نام سے شائع ہوئے اور ان کا اردو اور عربی میں ترجمہ بھی ہوا ہے، بہت سے ایسے خیالات و افکار ملتے ہیں جن کی تاویل توجیہہ اور اہلِ سنت کے اجماعی
Flag Counter