عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی ہے یہی احساس، استاذِ محترم مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا تھا، ان کی تمنا تھی یہ لیکچر شائع نہ ہوئے ہوتے تو اچھا تھا۔ ‘‘[1]
مولانا علی میاں رحمہ اللہ کی اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد ظفر اقبال لکھتے ہیں :
’’مولانا سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی اپنی کسی تحریر کے سوا مذکورہ بیان سے زیادہ اور کوئی محکم ذریعہ نہیں ہے، جس سے مولانا سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی رائے کا علم ہوسکے، اب دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو اسے تسلیم کرلیا جائے یا مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی طرف کذب وخیانت کی نسبت کی جائے۔ ‘‘[2]
مولانا أبوا لحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے خیال میں اقبال کے خطبات میں پیش کردہ بعض نظریات امت مسلمہ کے اجماعی عقائد سے متضاد ومتصادم ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
’’میں اقبال کو کوئی معصوم و مقدس ہستی اور کوئی دینی پیشوا اور امامِ مجتہد نہیں سمجھتا اور نہ ہی ان کے کلام سے استناد اور مدح سَرائی میں حَد افراط کو پہنچا ہوا ہوں جیسا کہ ان کے غالی معتقدین کا شیوہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکیم سنائی، عطار اور عارف رُومی آدابِ شریعت کے پاس اور لحاظ، ظاہر و باطن کی یک رنگی اور دعوت و عمل کی ہم آہنگی میں ان سے بہت آگے ہیں۔ اقبال کے ہاں اسلامی عقیدہ و فلسفہ کی ایسی تعبیریں بھی ملتی ہیں، جِن سے اتفاق کرنا مشکل ہے میں بعض پُر جوش نوجوانوں کی طرح اس کا بھی قائل نہیں کہ اسلام کو اُن سے بہترکسی نے سمجھا ہی نہیں اور اس کے علوم و حقائق تک ان کے سِوا کوئی پہنچا ہی نہیں بلکہ سچ تویہ ہے کہ اپنے مقتدر معاصرین سے برابر استفادہ ہی کرتے رہے۔ اُن کی نادر شخصیت میں بعض ایسے کمزور پہلو بھی ہیں جو اُن کے علم و فن اور پیغام کی عظمت سے میل نہیں کھاتے او ر جنھیں دُور کرنے کا موقع انھیں نہیں ملا۔ ان کے مدراس کے خطبات میں بہت سے ایسے خیالات و افکار بھی ہیں جن کی تعبیر وتوجیہہ اور اہلِ سُنّت کے اجتماعی عقائد سے مطابقت مشکل ہی سے کی جاسکتی۔ ۔ ۔ یہ لیکچر شائع نہ ہوئے ہوتے تو اچھاتھا۔ ‘‘[3]
ڈاکٹر محمد خالد مسعود کے بقول بھی علامہ مرحوم کے نقطہ نظر اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ کو علماء میں قبول عام حاصل نہ ہو سکا اور علماء نے عموماً پارلیمنٹ کی بجائے غیر سرکاری اداروں اور انجمنوں کے ذریعے ہی اجتماعی اجتہاد کے عمل کو آگے بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود لکھتے ہیں :
’’ اجماع اور اجتہاد کے بارے میں علامہ اقبال نے ایک طرح سے دو اجتہادات پیش کیے تھے۔ ایک تو اجتہاد کے انفرادی کے بجائے اجتماعی عمل کا تصور‘ دوسرے قانون ساز اسمبلیوں سے اجماع اور اجتہاد یا اجتماعی اجتہاد کے اداروں کا کام لینے کی تجویز۔ ان میں پہلی بات تو علماء میں خاصی مقبول ہوئی اور بہت سے علما ء کے ہاں اس کی تائید ملتی ہے۔ اگرچہ اس میں براہ راست اقبال کے حوالے سے بات نہیں کی گئی‘ تاہم پاکستان سے مولانا محمد یوسف بنوری اور بھارت سے مولانا تقی امینی نے بہت زور کے ساتھ انفرادی کی بجائے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی اس خیال کو حمایت حاصل ہوئی۔ چناچہ شیخ أبو زہرہ رحمہ اللہ (الاجتہاد فی الفقہ الإسلامی)‘مصطفی أحمد زرقاء‘(الاجتہاد ومجال التشریع فی الإسلام)اور شیخ عبد القادر المغربی نے(البینات)میں بہت زور دیا۔ البتہ اجتماعی اجتہاد کی شکلیں کیا ہوں گی‘اس پر علامہ اقبال کے خیال کو قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ اکثر علماء نے جن میں أبو زہرہ اورمصطفی زرقاء بھی شامل ہیں ‘ علماء کی خصوصی مجالس اور تحقیقاتی اداروں کی تشکیل کی تجاویز دی ہیں ‘ لیکن یہ اختیارات قانون ساز اسمبلیوں کودینے کی تائید علماء کی جانب سے ابھی تک نہیں ہوئی۔ ‘‘[4]
|