Maktaba Wahhabi

333 - 368
أحد الوزراء أو نوابہ أو الوزراء أو نوابھم أسئلۃ فی أی موضوع یدخل فی اختصاصھم۔ وعلی رئیس مجلس الوزراء أو من ینیبونہ الإجابۃ عن أسئلۃ الأعضاء ویجوز للعضو سحب السؤال فی أی وقت ولا یجوز تحویلہ فی نفس الجلسۃ إلی استجواب۔ ۱۲۰۔ لکل عضو من أعضاء المجلس النیابی حق توجیہ استجوابات إلی رئیس مجلس الوزراء أو نوابہ أو الوزراء أو نوابھم لمحاسبتھم فی الشؤون التی تدخل فی اختصاصاتھم۔ وتجری المناقشۃ فی الاستجواب بعد سبعۃ أیام علی الأقل من تقدیمہ إلا فی حالات الاستعجال التی یراھا المجلس وبموافقۃ الحکومۃ۔ ۱۲۱۔ الوزراء مسؤولون أمام المجلس النیابی عن السیاسۃ العامۃ للدولۃ وکل وزیر مسؤول عن أعمال وزارتہ۔ والمجلس النیابی أن یقرر سحب الثقۃ من أحد نواب رئیس مجلس الوزراء أو أحد الوزراء أو نوابھم ولا یجوز عرض طلب سحب الثقۃ إلا بعد استجواب وبناء علی اقتراح عشر أعضاء المجلس۔ ولا یجوز للمجلس أن یصدروا قرارہ فی الطلب قبل ثلاثۃ أیام علی الأقل من تقدیمہ ویکون سحب الثقۃ بأغلبیۃ أعضاء المجلس۔ ‘‘[1] ’’۱۱۹۔ پارلیمنٹ کے اراکین میں سے ہر رکن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اختیارات سے متعلقہ کسی موضوع کے بارے میں وزیر اعظم‘ ان کے نائب‘ کسی وزیر یا اس کے نائبین ‘ وزراء یا ان کے نائبین کی توجہ کچھ استفسارات کی طرف مبذول کرے۔ وزیر اعظم یا ان کے نائبین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اراکین کے سوالوں کے جواب دیں۔ کسی رکن کا کسی بھی وقت سوال واپس لینا جائز ہو گا اور اسی اجلاس میں ہی اس سوال کے جواب کا تقاضا کرنا درست نہ ہو گا۔ ۱۲۰۔ پارلیمنٹ کے ہر رکن کو وزیر اعظم‘ ان کے نائبین‘ وزراء یا ان کے نائبین سے‘ ان کے محاسبہ کے لیے‘ ان کے اختیارات کے دائرہ کار میں شامل امور کے بارے میں جواب طلبی کا حق حاصل ہو گا۔ جواب طلبی کا تقاضا آنے کے بعد اس کے بارے میں بحث و تمحیص کم از کم سات دن کے بعد جاری ہو گی إلا یہ کہ پارلیمنٹ کی رائے اور حکومت کی موافقت سے حالات کی روشنی میں اس بارے میں کچھ مزید جلدی کر لی جائے۔ ۱۲۱۔ وزراء ‘مملکت کی عمومی سیاست کے بارے میں پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوں گے اور ہر وزیر اپنی وزارت کے بارے میں مسؤول ہو گا۔ پارلیمنٹ کے لیے یہ درست ہو گا کہ وہ وزیر اعظم یا کسی ایک وزیر یا ان کے نائبین پر عدم اعتماد کا اظہار کرے۔ عدم اعتماد کی تحریک پر کاروائی صرف اسی صورت جائز ہو گی جبکہ اس کا تقاضا و تجویز دس اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے آئے۔ پارلیمنٹ کے لیے درست نہ ہو گا کہ وہ عدم اعتماد کے مطالبے کے بارے اس کے تقاضے سے کم ازکم تین دن پہلے اس بارے میں کوئی قرارداد جاری کرے۔ عدم اعتماد کا فیصلہ اراکین کی اکثریت سے طے ہو گا۔ ‘‘ پارلیمنٹ اور حکومت کے مابین اختلافات اور اس کو حل کرنے کے لیے حَکم کے طور پر قومی فتوی کمیٹی کے بارے میں درج ذیل دفعات میں رہنمائی دی گئی ہے: ’’۱۲۲۔ المجلس النیابی أن یقرر بناء علی طلب عشر من أعضائہ مسؤولیۃ رئیس مجلس الوزراء ویصدر القرار بأغلبیۃ أعضاء المجلس۔ ولا یجوز أن یصدر ھذا القرار إلا بعد استجواب موجہ إلی الحکومۃ وبعد ثلاثۃ أیام علی الأقل من تقدیم الطالب۔ وفی حالۃ تقریر المسؤولیۃ یعد المجلس تقریراً یرفعہ إلی الإمام متضمناً عناصر الموضوع وما انتھی إلیہ من رأی فی ھذا الشأن وأسبابہ۔ وللإمام أن یرد التقریر إلی المجلس خلال عشرۃ أیام فإذا عاد المجلس إلی إقرارہ من جدید جاز للامام أن یعرض موضوع النزاع بین المجلس والحکومۃ علی الاستفتاء الشعبی۔ ویجب أن یجری الاستفتاء خلال ثلاثین یوماً من تاریخ الإقرار الأخیر للمجلس وتقف جلسات المجلس فی ھذہ الحالۃ۔ فإذا جاء ت نتیجۃ الاستفتاء مؤیدۃ للحکومۃ اعتبر المجلس منحلاً وإلا اعتبرت الوزارۃ
Flag Counter