مستقیلۃ۔ ۱۲۳۔ إذا قرر المجلس سحب الثقۃ من أحد نواب رئیس مجلس الوزراء أو الوزراء أو نوابھم وجب علیہ اعتزال منصبہ۔ ویقدم رئیس مجلس الوزراء استقالتہ إلی الإمام إذا تقررت مسؤولیتہ أمام المجلس النیابی۔ ‘‘[1]
’’۱۲۲۔ پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دس اراکین کے مطالبے پر وزیر اعظم سے جواب دہی کی قرارداد کی بنیاد رکھے اور پارلیمنٹ کی اکثریت کی رائے سے قرارداد جاری کرے۔ پارلیمنٹ کے لیے حکومت سے جواب طلبے کے تقاضے اور جواب دہی کی درخواست کے کم از کم تین دن بعد کے بغیر یہ قرارداد پاس کرنا درست نہیں ہے۔ وزیر اعظم سے مسؤولیت کی رپورٹ کی تیاری کے دوران پارلیمنٹ امام کے سامنے ایسی رپورٹ بھی پیش کرے گی جس میں متعلقہ موضوع کے عناصر اور اس مسئلے میں اپنی انتہائی رائے اور اس کے اسباب کو واضح کرے گی۔ امام یہ رپورٹ دس دنوں کے اندر اندر پارلیمنٹ کو واپس کرے گا۔ اگر پارلیمنٹ ایک نئی قرارداد کے ذریعے اپنی سابقہ رائے پر برقرار رہے تو امام کے لیے یہ درست ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ اور حکومت کے باہمی نزاع کو قومی فتوی کمیٹی کے سپرد کر دے۔ یہ لازم ہے کہ پارلیمنٹ کی آخری قرارداد کے پاس کرنے کی تاریخ کے ایک ماہ کے اندر اندر اس بارے فتوی کمیٹی کی طرف رجوع کیا جائے۔ ان حالات میں پارلیمنٹ کے اجلاسات موقوف کر دیے جائیں گے۔ اگر فتوی کمیٹی کے نتائج حکومت کی تائید میں ہوئے تو پارلیمنٹ تحلیل ہو جائے گی اور دوسری صورت میں حکومت مستعفی ہو جائے گی۔ ۱۲۳۔ اگر پارلیمنٹ وزیر اعظم کے نائبین یا وزراء یا ان کے نائبین میں سے کسی ایک پر عدم اعتماد کا اظہار کرے تو اس کے لیے اپنے منصب سے مستعفی ہونا لازم ہو جائے گا۔ وزیر اعظم اپنا استعفی امام کے سامنے پیش کرے گا جبکہ پارلیمنٹ کے سامنے اس کی مسؤولیت طے پا جائے۔ ‘‘
امام(صدر)اور پارلیمنٹ کے باہمی ربط و تعلق اور اختیارات کے توازن پر درج ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی گئی ہے:
’’۱۲۴۔ یلقی الإما م عند افتتاح دور الانعقاد العادی المجلس النیابی بیاناً یتضمن السیاسۃ العامۃ للدولۃ ولہ الحق فی إلقاء أی بیانات أخری أمام المجلس وللمجلس النیابی مناقشۃ بیان الإمام۔ ۱۲۵۔ یقدم رئیس مجلس الوزراء بعد تالیف الوزارۃ وعند افتتاح دور الانعقاد العادی للمجلس النیابی برنامج الوزارۃ۔ ویناقش المجلس النیابی الوزارۃ۔ ۱۲۶۔ یجوز لرئیس مجلس الوزراء ونوابہ والوزراء ونوابھم أ ن یکونوا أعضاء فی المجلس النیابی کما یجوز لغیر الأعضاء منھم حضور جلسات المجلس ولجانہ۔ ۱۲۷۔ یسمع رئیس مجلس الوزراء فی المجلس النیابی ولجانہ کلما طلبوا الکلام ولھم أن یستعینوا بمن یرون من کبار الموظفین ولا یکون للوزیر صوت معدود عند أخذ الرأی إلا إذا کان من الأعضاء۔ ۱۲۸۔ یجوز للإمام عند الضرورۃ حل المجلس النیابی۔ ویجب أن یشتمل قرار الحل علی دعوۃ الناخبین لإجراء الانتخابات جدیدۃ للمجلس النیابی فی میعاد لا یجاوز ستین یوماً من تاریخ حل المجلس۔ ویجتمع المجلس الجدید خلال الأیام العشرۃ التالیۃ لتمام الانتخاب۔ ‘‘[2]
’’امام ‘ پارلیمنٹ کے عمومی اجلاس کے انعقادکے افتتاح کے وقت مملکت کی عمومی سیاست پر ایک بیان جاری کرے گا۔ امام کو یہ بھی اختیار حاصل ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ میں کوئی سی بھی تقاریر کرے اور پارلیمنٹ کو بھی امام سے بحث و مباحثے کی اجازت ہو گی۔ ۱۲۵۔ وزیر اعظم‘ وزارت کے قیام کے بعد اور پارلیمنٹ کے عمومی اجلاس کے انعقاد کے افتتاح کے وقت وزارت کا پروگرام پیش کریں گے۔ پارلیمنٹ اس موضوع پر وزارت سے مناقشہ کرے گی۔ ۱۲۶۔ وزیر اعظم‘ اس کے نائبین‘ وزراء اور ان کے نائبین کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ کے رکن ہوں جیسا کہ ان میں جو پارلیمنٹ کے رکن نہ بھی ہوں ‘ ان کے لیے بھی یہ جائز ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاسات اور کمیٹیوں میں شریک
|