Maktaba Wahhabi

332 - 368
پیش کرنے کے بارے میں طریق کار متعین کرے گا۔ ۱۱۱۔ عمومی بجٹ کے پروگرام کو ایک ایک باب کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گااور یہ بجٹ قانون کے مطابق جاری ہو گا۔ پارلیمنٹ کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ وہ حکومت کی موافقت کے بغیر بجٹ میں کوئی کمی بیشی کرے۔ مالی سال کے گزرنے سے پہلے جب تک نئے بجٹ کااعتماد بحال نہ ہو گا‘ اس وقت تک پرانے بجٹ پر عمل ہو گا۔ قانون ‘بجٹ کی تیاری کا طریق کار مقرر کرے گا جیسا کہ وہ مالی سال کا بھی تعین کرے گا۔ ۱۱۲۔ عمومی بجٹ کی ایک مدسے دوسری مد میں رقم کی منتقلی یا بجٹ میں غیرمذکور مدمیں یا اس کی بعض مدوں میں متعین مقدار سے زائد رقم کے استعمال کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت کا حصول لازم ہو گا اور یہ قانون کے مطابق ہو گا۔ ۱۱۳۔ اسی طرح مملکت کے عمومی بجٹ کا اختتامی حساب مالی سال کے ختم ہونے کے بعد سے ایک سال کے اندر اندر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہو گا۔ اس کے ایک ایک باب کے بارے میں رائے لی جائے گی اور یہ قانون کے مطابق جاری ہو گا۔ اسی طرح محاسبین(آڈیٹرز اور أکاؤنٹنٹس)اور ان کے تاثرات کی ایک سالانہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ آڈٹننگ و أکاؤنٹنگ ڈیپارٹمنٹ سے کوئی سے بھی حسابات یارپورٹس طلب کرے۔ ‘‘ ٹیکس و جرمانوں کے اجراء اور ان کی وصولیابی‘ مملکت کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد میں تصرف اور وظائف‘ پنشن‘ ألاؤنس وغیرہ کے بارہ میں درج ذیل أصولی رہنمائی آئین میں موجود ہے: ’’۱۱۴۔ إنشاء الضرائب العامۃ وتعدیلھا أو إلغاؤھا لا یکون إلا بقانون ولا یعفی أحد من أدائھا إلا فی الأحوال المبینۃ فی القانون۔ ولا یجوز تکلیف أحد أداء غیر ذلک من الضرائب أو الرسوم إلا فی حدود القانون۔ ۱۱۵۔ ینظم القانون القواعد الأساسیۃ لجبایۃ الأموال العامۃ وإجراء ات صرفھا۔ ۱۱۶۔ یجوز للحکومۃ عقد قروض أو الارتباط بمشروع یترتب علیہ إنفاق مبالغ من بیت المال فی فترۃ مقبلۃ إلا بموافقۃ المجلس النیابی۔ ۱۱۷۔ یعین القانون قواعد منح المرتبات والمعاشات والتعویضات والإعانات والمکافآت التی تتقرر علی بیت المال وینظم القانون حالات الاستثناء منھا والجھات التی تتولی تطبیقھا۔ ۱۱۸۔ لا یجوز منح أی التزام متعلق باستغلال موراد الثروۃ الطبیعیۃ أو المرافق العامۃ إلا بقانون ویبین القانون أحوال التصرف بالمجان فی العقارات المملوکۃ للدولۃ والنزول عن أموالھا المنقولۃ والقواعد والإجراء ات المنظمۃ لذلک۔ ‘‘[1] ’’۱۱۴۔ عمومی جرمانوں و ٹیکس وغیرہ کا اجراء‘ ان میں ترمیم اور ان میں معافی قانون کے مطابق ہوگی۔ کسی کو بھی کسی صورت جرمانے کی ادائیگی سے مستثنی نہیں رکھا جائے گا سوائے ان أحوال کے کہ جن کی قانون میں وضاحت کر دی گئی ہو۔ کسی کو بھی اس کے علاوہ جرمانوں یاٹیکس یا فیس وغیرہ کی ادائیگی کا مکلف نہیں کیا جائے گا مگر قانون کی حدود میں۔ ۱۱۵۔ قانون عمومی اموال کی وصولیابی اور ان کو خرچ کرنے کے طریق کار کے بارے میں بنیادی قواعد وضع کرے گا۔ ۱۱۶۔ حکومت کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیرکسی ایسے پروگرام کو شروع کرنا یا اس کے لیے قرض لینا جائز نہ ہو گا جس میں مستقبل میں بیت المال کی ایک بڑی رقم خرچ ہو رہی ہو۔ ۱۱۷۔ قانون‘ بیت المال سے جاری ہونے والے وظائف‘ پنشنز‘ ألاؤنسز‘ گرانٹس اور تنخواہوں کے بارے میں قواعد و ضوابط مقرر کرے گا۔ قانون اس بارے میں استثنائی حالات اور ان پہلووں کو بھی متعین کرے گا جو تطبیق کے متقاضی ہیں۔ ۱۱۸۔ قدرتی ذرائع و وسائل یا عمومی حاجات کی اشیاء کو کسی ایسے ٹھیکے پر دینا جس میں ان کا ناجائز استعمال ہوتا ہو‘ درست نہ ہو گا اور یہ کام قانون کے مطابق ہو گا۔ قانون مملکت کی مملوکہ غیر منقولہ جائداد میں مفت تصرف اور منقولہ جائداد سے دستبردای کے أحوال‘ قواعد اور اس کے لیے منظم اقدامات واضح کرے گا۔ ‘‘ وزیر اعظم‘ وفاقی کابینہ اور مختلف وزارتوں میں متعین وزراء و مشیران سے جواب طلبی اور ان پر عدم اعتماد کے اظہار کے بارے میں درج ذیل أصولوں میں رہنمائی دی گئی ہے: ’’۱۱۹۔ لکل عضو من أعضاء المجلس النیابی أن یوجہ إلی رئیس مجلس الوزراء أو أحد نوابہ أو
Flag Counter