Maktaba Wahhabi

329 - 368
پہلے خالی ہو گئی تو پارلیمنٹ کو اس سیٹ کے خالی ہونے کی اطلاع پہنچنے کے ساٹھ دنوں کے اندر اندر اس کے جانشین کا انتخاب یا تعیین ہو گی۔ نئے رکن کی مدت رکنیت وہی ہو گی جو کہ سابقہ رکن کی تھی۔ ‘‘ پارلیمنٹ کے رکن کی رکنیت کی معطلی‘ استعفی اور اس کے مالی معاملات کے بارے میں دستور میں درج ذیل رہنمائی موجود ہے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’۹۲۔ لا یجوز لعضو المجلس النیابی أثناء مدۃ عضویتہ أن یشتری أو یستأجر شیئاً من أموال الدولۃ أو یؤجرھا أو یبیعھا شیئاً من أموالہ أو أن یقاضیھا علیہ أو أن یبرم مع الدولۃ عقدا بوصفہ ملتزماً أو موردا أو مقاولا۔ ۹۳۔ لایجوز إسقاط عضویۃ أحد أعضاء المجلس إلا إذا فقد الثقۃ والاعتبار أو فقد أحد شروط العضویۃ أو أخل بواجبات عضویتہ۔ ویجب أن یصدر قرار إسقاط العضویۃ من المجلس بأغلبیۃ ثلثی أعضائہ۔ ۹۴۔ المجلس النیابی ھو الذی یقبل استقالۃ أعضائہ۔ ۹۵۔ یؤاخذ أعضاء المجلس النیابی عما یبدونہ من الأفکار والآراء فی أداء أعمالھم فی المجلس أو فی لجانہ ما دامت فی حدود أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ۔ ۹۶۔ لا یجوز فی غیر حالۃ التلبس بالجریمۃ اتخاذ أیۃ إجراء ات جنائیۃ ضد عضو المجلس النیابی إلا بإذن سابق من المجلس۔ ‘‘[1] ’’۹۲۔ پارلیمنٹ کے کسی رکن کے لیے اپنی رکنیت کے دوران یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مملکت کے أموال میں سے کوئی چیز خریدے یاأجرت پر حاصل کرے یااجرت پر دے یا اسے بیچے یا اس پر کسی سے صلح کرے یا مملکت کے ساتھ اجارہ دار‘ برآمد کنندہ( ایکسپورٹر)یاٹھیکے دار کی حیثیت سے کوئی معاہدہ نہ کرے۔ ۹۳۔ پارلیمنٹ کے کسی رکن کی رکنیت کاصرف اسی صورت اسقاط جائز ہے جبکہ کسی رکن کی ثقاہت اور اعتبار متاثر ہو یا رکنیت کی شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہو جائے یا وہ رکنیت کے فرائض میں کوتاہی کرے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی رکن کی رکنیت پارلیمنٹ کے دو تہائی اراکین کی غالب اکثریت سے معطل ہو۔ ۹۴۔ پارلیمنٹ ہی کسی رکن کا استعفی قبول کر سکتی ہے۔ ۹۵۔ پارلیمنٹ کے اراکین سے ان افکار و آراء کے بارے میں کوئی مواخذہ نہ ہو گاجنہیں وہ پارلیمنٹ یا مختلف ذیلی کمیٹیوں میں مختلف اعمال و فرائض کی ادائیگی کے دوران ظاہر کرتے ہیں جب تک کہ وہ شرعی أحکام کی حدود میں ہوں۔ ۹۶۔ کسی جرم میں ملوث ہوئے بغیر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ ‘‘ پارلیمنٹ کے اجلاس کے مقام‘ تعداد اور وقت کے تعین کے بارے میں دستور میں درج ذیل أصولی رہنمائی موجود ہے: ’’۹۷۔ مدینۃ۔ ۔ ۔ مقر المجلس النیابی ویجوز فی الظروف الاستثنائیۃ أن یعقد جلساتہ فی مدینۃ أخری بناء علی طلب الإمام أو أغلبیۃ أعضاء المجلس واجتماع المجلس النیابی فی غیر المکان المعد لہ غیر مشروع والقرارات التی تصدر فیہ باطلۃ۔ ۹۸۔ یدعو الإمام المجلس النیابی للانعقاد للدور السنوی العادی قبل یوم(کذا)من شھر(کذا)فإذا لم یدع یجتمع بحکم الدستور فی الیوم المذکور ویدور دور الانعقاد العادی سبعۃ أشھر علی الأقل۔ ویفض الامام دورتہ العادیۃ ولا یجوز فضھا قبل اجتماع المیزانیۃ العامۃ للدولۃ۔ ۹۹۔ یدعو الإمام المجلس النیابی لاجتماع غیر عادی وذلک فی حالۃ الضرورۃ أو بناء علی طلبہ بذلک موقع علیہ من أغلبیۃ أعضاء المجلس النیابی ویعلن الإمام فی الاجتماع غیر العادی۔ ‘‘[2] ’’۹۷۔ شہر۔ ۔ ۔ پارلیمنٹ کا مستقر ہو گا اور استثنائی صورت حال میں اس کے اجلاسات دوسرے شہروں میں بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں
Flag Counter