جبکہ امام یا اکثر اراکین کی طرف سے کوئی ایسا مطالبہ سامنے آئے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس اس کی متعین جگہ کے علاوہ جائز نہ ہو گا اور ایسے اجلاس میں صادر ہونے والی قراردادیں بھی باطل تصور ہوں گی۔ ۹۸۔ امام فلاں دن اور فلاں مہینے سے پہلے پہلے پارلیمنٹ کا سالانہ معمول کا اجلاس بلوائے گا۔ پس اگر امام یہ اجلاس نہ بلوائے تو پارلیمنٹ متعلقہ دن میں دستور کے موافق اجلاس کے لیے جمع ہو گی اور عمومی اجلاس کم از کم سات مہینوں میں ایک بار منعقد ہو گا۔ امام پارلیمنٹ کے عمومی اجلاس کے خاتمے کا اعلان کرے گا اور پارلیمنٹ کے اجلاس کا خاتمہ مملکت کے عمومی بجٹ کے پیش کرنے سے پہلے درست نہ ہو گا۔ ۹۹۔ امام ضرورت کے وقت پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر سکتا ہے۔ اسی طرح کسی موقع پرپارلیمنٹ کی اکثریت کے مطالبے پر بھی ہنگامی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے۔ ہنگامی اجلاس کے انعقاد کا اعلان امام کرے گا۔ ‘‘
پارلیمنٹ کے اعلانیہ اور خفیہ اجلاسات اور قرار دادوں کے پاس کرنے کا طریق کار ان أصولوں کی روشنی میں وضع کیا جائے گا۔ ڈاکٹر مصطفی کمال وصفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’۱۰۰۔ ینتخب المجلس النیابی رئیساً لہ ووکیلین فی أول اجتماع لدور الانعقاد السنوی العادی لمدۃ ھذا الدور وإذا خلا مکان أحدھم أنتخب المجلس من یحل محلہ إلی نہایۃ مدتہ۔ ۱۰۱۔ یضع المجلس النیابی لائحۃ لتنظیم أسلوب العمل فیہ وکیفیۃ وممارسۃ وظائفہ۔ ۱۰۲۔ للمجلس النیابی وحدہ المحافظۃ علی النظام داخلہ ویتولی ذلک رئیس المجلس۔ ۱۰۳۔ جلسات المجلس النیابی علنیۃ۔ ویجوز انعقادہ فی جلسۃ سریۃ بناء علی طلب الإمام أو الحکومۃ أو بناء علی طلب رئیسہ أو خمس أعضائہ علی الأقل: ثم یقرر المجلس ما إذا کانت المناقشۃ فی الموضوع المطروح أمامہ تجری فی جلسۃ علنیۃ أو سریۃ۔ ۱۰۴۔ لا یکون انعقاد المجلس إلا بحضور أغلبیۃ أعضائہ۔ ویتخذ المجلس قراراتہ بالأغلبیۃ المطلقۃ للحاضرین وذلک فی غیر الحالات التی تشترط فیھا أغلبیۃ خاصۃ۔ ویجری التصویت علی مشروعات القوانین مادۃ مادۃ وعند تساوی الآراء یعتبر الموضوع الذی جرت المناقشۃ فی شأنہ مرفوضاً۔ ۱۰۵۔ للإمام ولکل عضو من أعضاء المجلس النیابی حق اقتراح القوانین۔ ‘‘[1]
’’۱۰۰۔ پارلیمنٹ اپنے پہلے سالانہ عمومی اجلاس میں اپنی معینہ مدت تک کے لیے ایک صدر(چیئر مین)اور دو نمائندگان(أسپیکر اور ڈپٹی أسپیکر)مقرر کرے گی۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی نشست خالی ہو جائے گی تو اس کی جگہ مجلس بقیہ مدت کے لیے کسی اوررکن کا انتخاب کرے گی۔ ۱۰۱۔ پارلیمنٹ اس بارے میں اپنے طریقہ عمل ‘ اپنے کاموں کی کیفیت و سرگرمی کو منظم کرنے کے لیے لائحہ عمل وضع کرے گی۔ ۱۰۲۔ صرف پارلیمنٹ داخلی نظام کی محافظ ہو گی اور پارلیمنٹ کا چیئرمین اس کا ذمہ دار ہو گا۔ ۱۰۳۔ پارلیمنٹ کے اجلاسات اعلانیہ ہوں گے۔ لیکن امام یا حکومت یا صدر پارلیمنٹ یا اس کے کم از کم ۵؍۱ اراکین کی طرف سے اگر خفیہ اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ ہو گا تو اس صورت میں ایسا اجلاس منعقد کرنا جائز ہو گا۔ پھر پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ یہ طے کرے کہ پیش کیے گئے موضوع پر بحث و تمحیص اعلانیہ نشست میں ہونی چاہیے یا خفیہ اجلاس میں۔ ۱۰۴۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کا انعقاد اس کے اکثر اراکین کی حاضری کی صورت میں ہو گا۔ پارلیمنٹ حاضر اراکین کی مطلق اکثریت سے قراردادیں پاس کرے گی۔ یہ ان حالات میں ہوگا جن میں کسی خاص اکثریت کی تائید کا حصول(مثلاً دو تہائی وغیرہ)شرط نہ ہو۔ قوانین سے متعلقہ پروگرامات میں ایک ایک آرٹیکل کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ اگر کسی مسئلے میں آراء برابر ہو جائیں تو جس مسئلے میں بحث و تمحیص ہوئی ہے ‘ وہ نامنظور کر دیا جائے گا۔ ۱۰۵۔ امام اور پارلیمنٹ کے ہر رکن کے پاس قوانین کے بارے میں تجویز پیش کرنے کا حق ہو گا۔ ‘‘
آئین میں پارلیمنٹ سے قوانین کے پاس ہونے طریق کار یوں بیان کیا گیا ہے:
|