اس سے کہاجائے گا:تم آرام سے سوجاؤ،تحقیق ہمیں علم تھا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پورے یقین کے ساتھ اتباع کرنے والے ہو۔ منافق (یاشکوک وشبہات کاشکارشخص)اس سوال کے جواب میں کہے گا: میںنہیں جانتا،میں نے تو لوگوں کو جوکچھ کہتے ہوئے سنا وہی کہہ ڈالا۔ وفی مصنف عبدالرزاق (۶۷۴۴)عن ابن جریج قال: أخبرنی أبو الزبیرأنہ سمع جابر بن عبداللہ یقول: إن ھذہ الأمۃ تبتلی فی قبورھا،فإذا دخل المؤمن قبرہ، وتولی عنہ أصحابہ، أتاہ ملک شدید الانتھار،فقال: ما کنت تقول فی ھذا الرجل؟ فیقول المؤمن: أقول إنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعبدہ، فیقول لہ الملک: اطلع إلی مقعدک الذی کان لک من النار،فقد أنجاک اللہ منہ، وأبدلک مکانہ مقعدک الذی تری من الجنۃ؟ فیراھا کلتیھما، فیقول المؤمن:أبشر أھلی؟ فیقال لہ: اسکن؛ فھذا مقعدک أبدا، والمنافق إذا تولی عنہ أصحابہ یقال لہ: ما کنت تقول فی ھذا الرجل؟ فیقول:لا أدری ، أقول ما یقول الناس، فیقال لہ: لا دریت، انظر مقعدک الذی کان لک من الجنۃ، قد أبدلک اللہ مکانہ مقعدک من النار. ترجمہ:مصنف عبدالرزاق میں ہے،ابن جریج فرماتے ہیں: مجھے ابوالزبیر نے بیان کیا،انہوں نے جابربن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں:بلاشبہ یہ امت اپنی قبروں میں امتحان وابتلاء میں ڈالی جائے گی،جب مؤمن قبر میں داخل ہوگااور اس کے ساتھی اسے دفن کرکے واپس لوٹ جائیں گے تو ایک فرشتہ شدید غیظ وغضب سے بھرپور اس کے پاس آئےگا،اور کہے گا:تم اس شخص کے بارہ میں کیا کہتے ہو؟مؤمن کہے گا:میں یہی کہتاہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں،اور اس کے بندے ہیں ۔فرشتہ کہے گا: اپنا وہ ٹھکانہ دیکھ لو جو تمہارے لئے جہنم میں تیارکیاگیاتھا،اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے خلاصی عطافرمادی ہے،اور اس کے بدلے میں جنت میں |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |