کا زمانہ‘ صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ‘ تابعین رحمہم اللہ کا زمانہ اور پھرأئمہ اربعہ کادور آیا۔ ان تمام ادوار میں صحابہ رضی اللہ عنہم،تابعین رحمہم اللہ اور فقہائے کرام نے اپنے علم وفہم کی بنیاد پر اجتہادات کیے جو وقت کے ساتھ ساتھ مدون ہوتے گئے۔ دوسری صدی ہجری ہی سے فقہ کی کتابوں کی تصنیف و تالیف کا کام شروع ہو گیاتھا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’المؤطا‘میں احادیث کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم، و تابعین رحمہم اللہ کے اقوال و فتاوی بھی نقل کیے ہیں۔ اسی طرح ان کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے فقہ کے مسائل پر’ کتاب الأم‘کے نام سے ایک مستقل کتاب بھی لکھی۔ امام محمد رحمہ اللہ اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ وغیرہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو مرتب کیا۔ بعد میں آنے والے فقہاء نے اپنے أئمہ کرام کے فتاوی کو جمع کرنے کے لیے ضخیم کتابیں لکھیں ‘ سابقہ فقہاء کی کتابوں کے حاشیے لکھے گئے ‘ ان کی شروحات مرتب ہوئیں اور ان میں مذکورہ مسائل و دلائل کی تخریج و تحقیق کی گئی۔ عصر حاضر میں یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ چودہ سو سالہ اس عظیم تاریخی فقہی و علمی ذخیرے کوجدید اسلوب اورسہل انداز میں اختصار کے ساتھ اس طرح جمع کر دیا جائے کہ عامۃ الناس اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو علم فقہ کے حصول میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے علماء کے سیمینارز وغیرہ کا انعقاد شروع ہواجس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء نے اس نقطہ نظر کو پیش کیاکہ علماء کی ایک کمیٹی ایسی ہونی چاہیے جو ایک ایسے موسوعۃ کی تیاری کے لیے مل جل کر اجتماعی کوششیں کرے جو مطلوبہ مقاصد کو پورا کرنے والا ہو۔ ’نشرۃ تعریفیۃ ‘کے مقالہ نگار ان سیمینارز کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’أن أھم النداء ات التی ترددت لانجاز ھذا المشروع العلمی المبتکر بالنسبۃ للفقہ تمثل فی النداء الصادرعن مؤتمر أسبوع الفقہ الاسلامی فی باریس ۱۳۷۰ھ۔ (۱۹۵۱م)واشترک فیہ ثلۃ من فقھاء العالم الاسلامی۔ فکان بین توصیاتہ الدعوۃ إلی تألیف موسوعۃ فقھیۃ تعرض فیھا المعلومات الحقوقیۃ الإسلامیۃ وفقاً للأسالیب الحدیثۃ و الترتیب المعجمی۔ وفی ۱۳۷۵ھ۔ (۱۹۵۶م)کانت بدایۃ المحاولات الرسمیۃ لإبراز ھذا القرار التاریخی العالمی إلی حیز الواقع من قبل لجنۃ ملحقۃ بکلیۃ الشریعۃ فی جامعۃ دمشق مکونۃ بمرسوم جمھوری تم تعزیزہ بعد الوحدۃ السوریۃ المصریۃ بقرار جمھوری۔ فصدر عام ۱۳۸۱ھ۔ (۱۹۶۱م)جزء یتضمن نماذج من بحوث الموسوعۃ لتلقی الملاحظات۔ کتبھا فقہاء من البلدین‘ ثم صدر عن الموسوعۃ بعدئذ فی سوریۃ بعض الأعمال التمھیدیۃ کمعجم فقہ ابن حزم‘ ودلیل مواطن البحث عن المصطلحات الفقھیۃ۔ أما فی مصر‘ فإن فکرۃ الموسوعۃ التی احتضنتھا وزارۃ الأوقاف عام ۱۳۸۱ھ۔ (۱۹۶۱م)بین لجان المجلس الأعلی للشؤون الإسلامیۃ صدر أول أجزائھا عام ۱۳۸۶ھ وبلغت ۲۴ جزء ا ولا تزال فی مصطلحات الھمزۃ۔ ‘‘[1]
’’فقہی اعتبار سے اس عظیم علمی منصوبے کی تکمیل کی خاطر ہونے والی کانفرنسوں میں سے سب سے اہم کانفرنس وہ ہے جو پیرس میں ۱۳۷۰ھ یعنی ۱۹۵۱ء میں ’ فقہ اسلامی کا ہفتہ‘ کے نام سے منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں عالم اسلام کے فقہاء کی ایک بڑی جماعت نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کی سفارشات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایک ایسا موسوعۃ فقہیہ مدون کیا جائے جس میں جدید اور حروف تہجی کی ترتیب پر اسلامی حقوق کے بارے میں معلومات ہوں۔ ۱۳۷۵ھ یعنی ۱۹۵۶ء میں اس عالمی تاریخی قرارداد کو علمی جامہ پہنانے کے لیے سرکاری سطح پر کوششوں کا آغاز ہوااور جامعہ دمشق کے لاء کالج کی کمیٹی نے سرکاری اجازت کے ساتھ کام شروع کیا۔ ایک جمہوری قرارداد کے ذریعے شام و مصر کے اتحاد کے بعد یہ کمیٹی اور بھی مضبوط ہو گئی۔ ۱۳۸۱ھ یعنی ۱۹۶۱ء میں اس کمیٹی کی طرف سے ایک جلد شائع ہوئی جس میں موسوعۃ کے چند مباحث بطور نمونہ شامل تھے۔ اس جلد کی تکمیل میں مصر و شام دونوں ممالک کے فقہاء نے حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں شام میں موسوعۃ سے متعلق ابتدائی کام شائع ہوا مثلاً فقہ ابن حزم رحمہ اللہ کی معجم اور فقہی اصطلاحات کی تلاش کی فہرست۔ جہاں تک مصر کا معاملہ ہے تو
|