Maktaba Wahhabi

54 - 315
﴿ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾[1] یعنی اس کی کرسی جو اس کے مبارک قدموں کی جگہ ہے، اس نے زمین و آسمان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔کوئی گوشہ اس سے باہر نہیں۔لیکن ساتھ ہی ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ کا اعلان کر کے تشبیہ کے تصور کی بھی نفی کر دی، یعنی اس کے ہاتھ ضرور ہیں، اس کی آنکھیں ضرور ہیں، اس کی کرسی ضرور ہے لیکن ظواہر کی دنیا میں اس کی مثال تمھیں نہیں مل سکتی کیونکہ تمھاری سوچ کا دائرہ محدود ہے اور اللہ کی ذات عالی اس سے بہت بلند و بالا، اعلیٰ و ارفع ہے کہ اس کی حقیقت کو اس دنیا میں پایا جاسکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ ﴾ ’’نگاہیں اسے پا ہی نہیں سکتیں۔‘‘[2] نیز فرمایا: ﴿ فَلَا تَضْرِبُوا لِلّٰهِ الْأَمْثَالَ﴾ ’’تم اس کے لیے اپنے تخیل سے مثالیں بیان نہ کرو۔‘‘[3] ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں، اس کا پروردگار ہونا اس طرح نہیں جیسے ہم اسی کے دیے ہوئے عطیات اور اسی کی دی ہوئی طاقت کے ذریعے سے کسی کی پرورش کا ذریعہ بنتے ہیں۔اس کا دیکھنا، سننا اور جاننا ویسا نہیں ہوسکتا جس طرح کے دیکھنے، سننے اور جاننے کا ہم تصور کر سکتے ہیں۔قرآن نے اس کا یہی واحد حل دیا ہے۔یہ راہ اس قدر نازک اور حساس ہے کہ ذرا سی ٹھوکر لگی اور انسان گمراہی کی دلدل میں جاگرا۔یہ وہ مشکل مقام ہے کہ اگر تنزیہ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو تعطیل میں جاگرتے ہیں اور اگر اثباتِ صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو مشابہت اور وجود کے معاملے میں کھو جاتے ہیں۔نجات کی راہ صرف یہی ہے کہ دونوں کے درمیان قدم سنبھالے رکھیں۔اثبات کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے اور تنزیہ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑنے پائے، اس طرح تشبیہ اور تعطیل دونوں سے دامن بچا رہے گا۔ اسلام سے پہلے تصورات میں صفات کی نفی میں مبالغے کا تذکرہ گزر چکا لیکن مسلمانوں میں یہ بیماری اس وقت آئی جب علم کلام کے مختلف مذاہب اور نظریات سامنے آئے۔ اس وقت صفات باری تعالیٰ کا مسئلہ بحث و نظر کا ایک عظیم مسئلہ بن گیا۔جہمیہ اور باطنیہ صفات کے قطعی انکار کی طرف گئے، معتزلہ[4] نے انکار نہیں کیا لیکن ان کا رخ اسی طرف رہا۔ابوالحسن اشعری جو اس فکر کے
Flag Counter