Maktaba Wahhabi

265 - 315
قبروں میں مدفون لوگ کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے یہ عقیدے کا نہایت اہم مسئلہ ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے اس کی قدرے تفصیل سے وضاحت کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اصحاب قبور کی درج ذیل دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: جس شخص کا اسلام پر خاتمہ ہوا ہو اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، ایسے شخص کے لیے خیر و بھلائی کی امید ہے لیکن وہ بھی محتاج ہے کہ مسلمان بھائی اس کے لیے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے مغفرت و رحمت سے سرفراز فرمائے۔ایسا شخص حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہے: ﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴾ ’’اور (مالِ فے ان کے لیے بھی ہے) جو ان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے (اور) وہ (اپنی دعا میں) کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار!ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں، معاف فرما اور مومنوں کے لیے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) پیدا نہ ہونے دے۔اے ہمارے پروردگار!تو بہت شفقت کرنے والا، بے حد مہربان ہے۔‘‘[1] وہ شخص جو فوت ہوگیا ہو، وہ کسی کو کوئی نفع نہیں دے سکتا کیونکہ وہ برزخی زندگی میں ہے اہل دنیا کی دعا اور عبادت سے غافل ہے، نیز اپنی یا کسی دوسرے کی تکلیف کو دور کرنے کی کوئی استطاعت نہیں رکھتا، نہ اپنے آپ کو اور نہ کسی اور کو کسی طرح کا کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، لہٰذا وہ اس بات کا محتاج ہے کہ اس کے مسلمان بھائی اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کر کے اسے نفع پہنچائیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کی طرف سے
Flag Counter