Maktaba Wahhabi

140 - 315
اہل اسلام کے ہاں توحید میں بگاڑ کب اور کیسے شروع ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے عربوں میں سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب رسالت عطا کر کے پوری انسانیت کے لیے رسول مبعوث فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطب عرب ہی تھے۔ان میں کچھ پڑھے لکھے تھے، زیادہ تر اُمّی (اَن پڑھ) تھے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے سامنے دعوت توحید پیش کی اور بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا تو کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کی تفصیل دریافت نہیں کی، حالانکہ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ سے متعلق سیکڑوں سوالات کتب حدیث میں ملتے ہیں۔اسی طرح صحابۂ کرام نے جنت، جہنم اور قیامت کے متعلق سوالات بھی کیے۔حلال و حرام، جنگوں اور فتنوں کے متعلق بے شمار سوالات کرنے والے صحابہ کا مجموعی طرز عمل یہ ملتا ہے کہ کسی نے بھی قرآن میں وارد صفات الٰہیہ سے متعلق باریکیاں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا جس طرح تعارف کرا دیا، سب نے اس کے معنی کو اس کے ظاہر الفاظ کے مطابق سمجھ کر اس پر خاموشی اختیار کی اور صفات کی تفصیل دریافت کرنے سے گریز کیا۔وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ازلیہ علم، قدرت، زندگی، ارادہ، سمع و بصر، کلام، جلال، اکرام، جو دو سخا، عزت و عظمت کا ایک ہی مفہوم سمجھتے تھے، یعنی ان کو ان کے اصلی معنی پر محمول کرتے اور اس پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی جن صفات لازمہ کا ذکر قرآن میں کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے اور اس کے ہاتھ ہیں اور اس کے علاوہ دیگر صفات جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے، وہ سب ان صفات پر ایمان رکھتے تھے اور مخلوق کے مشابہ ہرگز نہ سمجھتے تھے اور اس معاملے پر ان میں کوئی اختلاف بھی نہ تھا اور نہ اس پر بحث و تمحیص کرنے کی کبھی نوبت ہی آئی۔
Flag Counter