Maktaba Wahhabi

235 - 315
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو بھیجا تھا، ان لوگوں نے جا کر ایک قوم کے پاس مہمان کی حیثیت سے قیام کیا مگر ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی۔تقدیر کی بات کہ ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تو انھوں نے صحابۂ کرام سے پوچھا: کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے؟صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اجرت لے کر دم کریں گے، چنانچہ انھوں نے صحابۂ کرام کو بطور اجرت بکریوں کا ایک ریوڑ دیا۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک صاحب نے جاکر اسے سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کردیا۔دم کی برکت سے سانپ کا ڈسا ہوا شخص اس طرح اٹھ بیٹھا گویا وہ ایسا اونٹ ہو جس کی رسی کھول دی گئی ہو۔[1] سورۂ فاتحہ کا دم مریض کی شفا یابی میں نہایت مؤثر ثابت ہوا۔ دعا میں بلاشبہ تاثیر ہے لیکن یہ تقدیر میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی تو بذریعہ دعا لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے کام بھی اور ان کے اسباب بھی، اور ان کے نتائج و ثمرات بھی حتی کہ وہ تمام مراحل بھی لکھے ہوتے ہیں جن سے گزر کر وہ کام تشکیل پاتا ہے، یعنی اسباب بھی لکھے ہوئے ہیں، مسببات بھی لکھے ہوئے ہیں اور تبدیلیاں بھی لکھی ہوئی ہیں۔ ہر چیز تقدیر میں لکھی ہوئی ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا فرمایا ہے، اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی ہر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی الْقَلَمَ، ثُمَّ قَالَ لَہُ: اُكْتُبْ. قَالَ: وَمَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: الْقَدَرَ، قَالَ فَكَتَبَ مَا یَكُونُ وَمَا ھُوَ كَائِنٌ إِلٰی أَنْ تَقُومَ السَّاعَۃُ)) ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا، پھر اسے حکم دیا کہ لکھو۔‘‘ قلم نے پوچھا: میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تقدیر لکھو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’توقلم نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ہو رہا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter