Maktaba Wahhabi

24 - 315
راہ دکھائی اور معاشرتی حقوق و فرائض کا ایک قانون متعارف کرا دیا لیکن جہاں تک اللہ رب العزت کی ہستی کا تعلق ہے، اس بارے میں ’’آسمان‘‘ کا قدیمی تصور بدستور قائم رہا اور آباء و اجداد کی تقلید نے اس کے ساتھ مل کر یہ صورت اختیار کر لی۔گویا آسمانی الٰہ تک پہنچنے کے لیے اُن بزرگوں کی روحوں کا وسیلہ ضروری ہے جو اس دنیا سے جاچکے ہیں۔روحانی تصورات میں وسیلے کا اعتقاد ہمیشہ عابدانہ پرستش کی نوعیت پیدا کر لیتا ہے، چنانچہ یہ توسل بھی عملاً ایک طرح کی عبادت ہی تھی اور ہر طرح کے دینی اعمال و رسوم کا مرکزی نقطہ وسیلہ ہی تھا۔ ہندوستان اور یونان میں دیوتاؤں کے تصور نے نشوو نما پائی تھی جو اللہ تعالیٰ کی ایک بالاتر ہستی کے ساتھ دنیا میں تصرف کا اختیار رکھنے والے اور شراکت دار سمجھے جاتے تھے، چینی تصور میں یہ خانہ بزرگوں کی روحوں نے بھر رکھا تھا۔ کنگ فوتسو کے ظہور سے پہلے قربانی کی رسم عام طور پر رائج تھی۔یہ الگ بات ہے کہ کنگ فوتسو نے اس پر زور نہیں دیا لیکن اس سے لوگوں کو روکا اور منع بھی نہیں کیا، چنانچہ قربانی کی رسم چینی مندروں کا تقاضا برابر پورا کرتی رہی۔قربانی کا مقصد طلبِ بخشش کے علاوہ یہ بھی ہوتا تھا کہ جس کے لیے قربانی دی جاتی ہے، ہم اس کے غضب سے بچ جائیں۔مزید برآں قربانیوں کے ذریعے سے ہم اپنے مقاصد بھی حاصل کر سکتے ہیں اور خدا کے قہر و غضب سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں۔پہلی غرض کے لیے وہ نذر ہیں اور دوسری غرض کے لیے فدیہ۔ لاؤ تسو نے ’’تاؤ‘‘ یعنی طریقت کے مسلک کی بنیاد ڈالی، اسے چین کا تصوف اور ویدانت[1] سمجھنا چاہیے۔تاؤ نے اگرچہ چینی زندگی کو روحانیت اور مراقبے کی راہوں سے آشنا کیا لیکن تصوف ملک کا عام دینی تصور نہ بن سکا۔اس کی محدود جگہ چین میں بھی وہی رہی جو ویدانت کی ہندوؤں میں اور تصوف کی مسلمانوں میں رہی ہے۔ چین کا شَمْنی تصور: اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ہندوستان کے شمنی مذہب، یعنی بدھ مت کی چین میں اشاعت ہوئی۔یہ بدھ مت کا فرقہ ’’مہایان‘‘[2] تھا جو بدھ مت کے اصل مبادیات سے بہت دور جاچکا تھا۔اس
Flag Counter