Maktaba Wahhabi

23 - 315
کی لیکن وہ مبہم عقائد و نظریات جو اصل عقیدۂ توحید کے مسخ ہو جانے کے بعد پیدا ہوگئے تھے، وہ مزید بگاڑ کا شکار ہوگئے۔ چین میں قدیم زمانے ہی سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک ’’آسمانی‘‘ ہستی کا اعتقاد موجود تھا۔ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کی بلندی کے تصور کے لیے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر نہیں اٹھا سکتے۔آسمان سے بارش برستی ہے اور آسمانی بجلیاں ہلاکت کا پیغام بھی ہیں، اس لیے آسمانی خدا کے تصور میں دونوں صفتیں نمودار ہوگئیں۔ایک طرف اس کا جودو سخا ہے، دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔چینی شاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ان میں جابجا یہ انداز ملتا ہے، مثلاً: ایک جگہ کہا گیا ہے: ’’یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں؟ تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔‘‘ یہ ’’آسمان‘‘ کسی زمانے میں چینی تصور کا ایک بنیادی عنصر تھا حتی کہ چینی جمعیت ’’آسمانی جمعیت‘‘ اور چینی مملکت ’’آسمانی مملکت‘‘ کے نام سے پکاری جانے لگی۔رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انھیں ایک ’’آسمانی مملکت‘‘ ہی کی خبر ملی تھی۔اس وقت سے (Cnelum اور اس جیسے الفاظ کا چین کے باشندوں کے لیے استعمال ہونے لگا، یعنی ’’آسمان والے‘‘ اور ’’آسمانی۔‘‘ اب بھی انگریزی میں چین کے باشندوں کے لیے مجازاً ’’سلسٹیل‘‘ (Celestial) کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یعنی آسمانی ملک کے باشندے۔ آسمانی ہستی کے علاوہ چینی باشندے روحوں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ان کے نزدیک کئی روحوں کو دوسرے عالم میں پہنچ کرتدبیر و تصرف کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے وہ انھیں پرستش کا مستحق سمجھتے تھے۔یہ تصور ہندوؤں اور افریقی مشرکوں میں بھی موجود تھا۔ہر خاندان کی اپنی اپنی معبود روحیں تھیں اور ہر علاقہ اپنا مقامی خدا رکھتا تھا۔ لاؤ۔تسو اور کنگ فوتسو کی تعلیم: سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے تقریباً پانچ سو برس پہلے ’’لاؤ۔تسو‘‘ (Lao_Tzu) اور ’’ُکنگ فوتسو‘‘ (Kung_fuRzu) کا ظہور ہوا۔’’ُکنگ فوتسو (کنفیوشس)‘‘ نے ملک کو علم کی
Flag Counter