Maktaba Wahhabi

49 - 315
قرآن کا تصورِ توحید اللہ تعالیٰ کی توحید کے حوالے سے سابقہ مذاہب اور قوموں کے مختصر تصورات کا ذکر کرنے کے بعد یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن نے ذات باری کا کیا تصور پیش کیا۔ہم ان تمام تصورات کے مطالعے کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ تصور الٰہی کے تمام تصوروں میں قرآن کا تصور معتدل، جامع اور بلند تر ہے۔اس سلسلے میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں: 1 تنزیہ کی تکمیل: قرآن سے پہلے ذات باری تعالیٰ کی معرفت کے حوالے سے گمراہی کے دو پہلو تھے۔بعض نے وجود باری تعالیٰ کو اس انداز سے ثابت کیا کہ تمثیل کی دلدل میں پھنس گئے حتی کہ ہر چیز میں وجود باری تعالیٰ کا تصور قائم کر لیا اور دوسری طرف کچھ نے تمثیل کا اس انداز سے رد کیا کہ تنزیہ، یعنی اللہ تعالیٰ کو تشبیہ اور مماثلت سے پاک قرار دیتے دیتے وجود باری تعالیٰ ہی کا انکار کر بیٹھے۔قرآن پاک نے جہاں اللہ تعالیٰ کے وجود اور صفات و افعال کا اثبات کیا ہے، وہاں اس سے ہر قسم کے عیب کی نفی بھی کی ہے۔اثبات اس طرح کیا ہے کہ خالق کی صفات اور افعال کی مخلوق کے صفات و افعال سے تشبیہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اور نفی اس انداز سے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت معطل نہیں ہوتی، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن نے ذاتِ باری کے بارے میں وجود اور تنزیہ کا جو تصور پیش کیا ہے، اُس کی کوئی مثال اس کے نزول کے وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔قرآن مجید سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا انسانی ذہن ادراک کر سکا تھا، یہ تھا کہ بتوں کی پوجا ترک کر کے ایک ان دیکھے خدا کی عبادت کی جائے لیکن جہاں تک صفات الٰہی کا تعلق ہے تو انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کی مماثلت سے کوئی تصور خالی نہ تھا۔ہندوستان اور یونان کا حال ہم نے پڑھا، یہود و نصاریٰ کی ضلالت اور گمراہی کا
Flag Counter