کا مدمقابل نہ بناؤ کہ تم اس کی بھی اسی طرح عبادت کرو جس طرح اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور اس سے اسی طرح محبت کرو جس طرح اللہ سے محبت کی جاتی ہے کیونکہ یہ بات عقلاً اور شرعاً بالکل غلط ہے۔
﴿ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾حالانکہ تم جانتے ہو کہ اس کا کوئی شریک اور مدمقابل نہیں ہے۔خلق، رزق اور تدبیرِ امور سب کچھ اُسی کے قبضۂ اختیار میں ہے، لہٰذا کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ ٹھہراؤ۔
عبادت کی قسمیں:
عبادت کی دو قسمیں ہیں: تکوینی عبادت اور شرعی عبادت۔
1 تکوینی عبادت:
اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا۔عبادت کی اس قسم میں مومن و کافر اور نیک و بد سبھی شامل ہیں، یعنی جس طرح سے اس نے کسی چیز کو پیدا کیا ہے طبعی طور پر خوشی ناخوشی سے وہ چیز اسی طرح زندگی گزار رہی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا ﴾
’’زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں وہ سب رحمن کے پاس غلام بن کر آئیں گے۔‘‘[1]
2 شرعی عبادت:
اللہ تعالیٰ کے شرعی حکم کو دل و جان سے تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا۔یہ عبادت ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اور جو شریعت رسول لے کر آئے ہیں اس کی پیروی کرتے ہیں جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا ..... ﴾
’’رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی (وقار اور عجزو انکسار) سے چلتے ہیں…۔‘‘[2]
پہلی قسم کی عبادت پر انسان کسی تعریف کا مستحق نہیں کیونکہ اس میں اس کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، البتہ اس حوالے سے اس کی بعض طبعی عادات و خصائل، مثلاً: فراخی و خوشحالی میں شکر کرنا اور مصائب و تکالیف میں صبر کرنا قابلِ تحسین ہیں۔اس کے برعکس دوسری قسم کی عبادت کرنے والے ہر لحاظ سے قابل تعریف ہیں۔
|