Maktaba Wahhabi

37 - 315
نئی مسیحی میڈونا (مریم علیہا السلام) کا بت تیار ہوگیا۔ نزول قرآن کے وقت مسیحی تصور، رحم و محبت کی باپ جیسی مشابہت کے ساتھ اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور تجسیم (اللہ کے لیے مخلوق جیسے جسم کا عقیدہ) کا ایک مخلوط، یعنی ’’شرکیہ اور توحیدی‘‘ تصور تیار ہوگیا تھا۔ 6 اہل یونان کا تصور یونان کا فلسفہ بہت مشہور ہے۔یہاں کوئی باقاعدہ مذہب نہیں تھا لیکن انسان کی فکری نشوونما کی تاریخ میں اس نے بہت بڑا حصہ لیا۔تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح یونان میں توحید کے تصور نے نشوو نما پانا شروع کی۔یونان کے ایک بہت بڑے استاد سقراط کے دور میں یہ پروان چڑھا اور افلاطون نے اس کو باقاعدہ مرتب کیا۔جس طرح ہندوستان میں رگ وید کے دیوتائی تصورات نے بالآخر یہ صورت اختیار کر لی تھی کہ ان سب کا ایک آسمانی رب ہے اور پھر بتدریج توحیدی تصور کی طرف قدم بڑھایا تھا، ٹھیک اسی طرح یونان میں بھی اولمپس[1] (Olympus) کے دیوتاؤں کو بالآخر بہت سے ارباب کے ایک رب (کی ہستی) کے آگے جھکنا پڑا اور پھر یہ تصور و حدت کی طرف قدم بڑھانے لگا۔یونان کے قدیم تصورات کے بارے میں جاننے کا واحد ذریعہ پرانی شاعری ہے۔جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو دو عقیدے برابر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں: مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی الوہیت۔ یونان کے پرانے مذہبی فلسفے میں ان دیکھی روحوں اور پھر ان روحوں کو کنٹرول کرنے والی کسی ذات کا تصور نہیں ملتا۔سقراط سے پہلے جو فلسفی گزرے انھوں نے قومی عبادت گاہوں کے دیوتاؤں کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں تھے۔ہندوستان کی طرح اب یہاں بھی یہ صورت حال تھی کہ عوام مشرکانہ عقیدے پر عمل کرتے تھے اور بڑے طبقے کے لوگ توحید کے عقیدے پر۔گویا دونوں آپس میں سمجھوتے کے تحت ایک ساتھ چل رہے تھے۔لیکن سقراط نے بتوں سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔اس نے کہا کہ اخلاقی طور پر اس کی حیثیت ایسی دکانداری سے زیادہ نہیں ہے کہ دیوتاؤں پر نذرانے چڑھاؤ اور اپنی خواہشات ان کے سامنے رکھو۔سقراط کے اس بے باک تبصرے پر اسے مذہبی گستاخ قرار دیا گیا۔اس پر سختی کی گئی لیکن اس نے اس بے ہودگی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔بالآخر لوگوں سے نااُمید ہو کر زہر کا جام
Flag Counter