Maktaba Wahhabi

72 - 315
ہی ہوگا۔اور وہ چیز بنائی گئی ہوگی خود کار نہیں ہوگی۔ ان دو اتفاقی باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایک خالق ہے اور وہ یقینا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔نظام کائنات میں غورو فکر معرفت الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ..... وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. ﴾ ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں… اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘[1] سورۂ آل عمران کی ان (گیارہ) آیات کے بارے میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَیْلٌ لِمَنْ قَرَأَھَا وَلَمْ یَتَفَکَّرْ فِیْھَا)) ’’جو شخص ان آیات کو پڑھے اور ان میں غور و فکر نہ کرے، اس کے لیے تباہی ہے۔‘‘[2] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے کائنات کے نظام میں غور و فکر کتنا ضروری ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ہر مخلوق کا وجود اس کے خالق کے وجود کی اسی طرح دلیل ہے جس طرح ہم عمارت دیکھ کر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا کوئی لکھنے والا ہے۔‘‘[3] اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے بے شمار دلائل دیے ہیں جو غور و فکر کرنے والے کے لیے توحید اور معرفت الٰہی کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ 3 کائنات کی تبدیلیاں اور حادثات: کائنات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، خواہ ان کا تعلق چیزوں کی اصل ماہیت سے ہو یا انسانوں اور حیوانات کے افعال سے، ہر انسان تسلیم کرتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا ضرور کوئی پیشگی سبب ہے جس کی وجہ سے یہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، پھر اس سبب کے ظاہر ہونے کا بھی کوئی سبب
Flag Counter