Maktaba Wahhabi

51 - 315
نہیں، نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہوئی، نہ ہو سکتی ہے۔‘‘[1] تورات اور قرآن کے جو مقامات مفہوم میں مشترک ہیں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تورات میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے براہ راست ظاہر ہونے کا ذکر ہے، قرآن وہاں اللہ تعالیٰ کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔تورات میں جہاں ہے کہ اللہ فلاں شکل میں ظاہر ہوا، قرآن اس موقع کی تعبیر اس طرح کرتا ہے کہ اللہ کا فرشتہ فلاں شکل میں ظاہر ہوا۔مثال کے طور پر تورات میں ہے: ’’خداوند نے کہا: اے موسیٰ!دیکھ یہ جگہ میرے پاس ہے تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور یوں ہوگا کہ جب میرے جلال کا گزر ہوگا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا۔اور جب تک نہ گزر لوں گا تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا، پھر ایسا ہوگا کہ میں ہتھیلی اٹھا لوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘[2] ’’تب خدا بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا۔اس نے کہا کہ میرا بندہ موسیٰ خداوند کی تشبیہ دیکھے گا۔‘‘[3] اسی معاملے کی تعبیر قرآن نے یوں بیان کی ہے: ﴿قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ ﴾ ’’موسیٰ نے کہا: اے میرے رب!مجھے اپنی جھلک دکھاتا کہ میں تجھے دیکھ سکوں۔اللہ نے فرمایا: تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا لیکن تو اس پہاڑ کی طرف دیکھ!‘‘ [4] اثبات اور تشبیہ کا فرق: یاد رہے کہ اثبات اور تشبیہ میں فرق ہے۔اثبات کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت میں اللہ تعالیٰ کا تعارف جن الفاظ و معانی کے ساتھ بیان ہوا ہے ہم اس تعارف کو من و عن، کھلے دل سے تسلیم کریں۔عقل ناقص کی بنیاد پر نہ تو کسی صفت کا انکار کریں اور نہ کسی محکم دلیل کے بغیر کسی صفت کے ظاہری معنی تبدیل ہی کریں یہ اثبات ہے۔تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ اثبات میں غلو کرتے ہوئے علم کے بغیر
Flag Counter