Maktaba Wahhabi

280 - 315
ہوگا کہ) آل فرعون کو سخت عذاب میں ڈال دو۔‘‘[1] آتش جہنم کے سامنے انھیں اس لیے تو پیش نہیں کیا جاتا کہ وہ تفریح کریں اور خوشیاں منائیں بلکہ انھیں اس لیے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ آگ کا عذاب چکھیں۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ﴾ ’’اور کاش تم ان ظالم (مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھوجب وہ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لیے) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانیں۔‘‘[2] اللّٰه أكبر وہ اپنی جانوں کے بارے میں بہت فکر مند ہوں گے اور وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ ان کے جسموں سے ان کی جانیں نکلیں، پھر ان سے کہا جائے گا: ﴿الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ﴾ ’’آج تم کو ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں گھڑتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘[3] ﴿اَلْیَوْم ﴾کا ’’ال‘‘ عہد حضوری کے لیے ہے، یعنی آج کا دن تمھاری وفات کا دن ہے ۔آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم اللہ پرناحق باتیں گھڑتے تھے اوراس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صریح سنت اور قرآن کی نصوص اور مسلمانوں کے اجماع سے عذاب قبر ثابت ہے۔ سنت سے دلیل: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِی أَسْمَعُ مِنْہُ)) ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میتوں کو دفن نہیں کرو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تمھیں بھی عذاب قبر کی وہ آوازیں سنا دے جو میں سنتا ہوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
Flag Counter