Maktaba Wahhabi

121 - 315
کیونکہ مخلوق کے بارے میں بھی استوی کی حقیقت میں اختلاف ہے۔ایک انسان کا آرام دہ کرسی پر مستوی ہونا اور ایک تیز رفتار سرکش اونٹ پر مستوی ہونا یکساں نہیں ہوتا۔جب مخلوق کے استوی کی کیفیات میں فرق ہے تو خالق اور مخلوق کے استوی میں کتنا فرق ہو گا؟ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں۔ اسمائے حسنیٰ کی تعظیم و تکریم سیدنا ہانی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو انھیں ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے سنا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’اصل حکم (فیصلہ کرنے والا) تو اللہ تعالیٰ ہے اور اسی کا فیصلہ چلتا ہے، پھر تجھے ابوالحکم کیوں کہا جاتا ہے؟‘‘ میں نے کہا: میری قوم میں جب کوئی اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں۔میں ان کے درمیان فیصلہ کر دیتا ہوں جسے دونوں فریق پسند کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے، تمھارے کتنے لڑکے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: شریح، عبداللہ اور مسلم۔آپ نے فرمایا: ’’ان میں سے سب سے بڑا کون ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: شریح۔آپ نے فرمایا: ’’آج سے تمھاری کنیت ابوشریح ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے دعا فرمائی۔[1] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا مکمل احترام کرنا ایمان کا تقاضا ہے اور اس تقاضے کی تکمیل ایمان کے لیے شرطِ لازم ہے۔چاہے دوسروں کے لیے یہ نام لیتے وقت اس کے وہ معنی مقصود نہ ہوں۔ اسمائے الٰہی ننانوے (99) تک محدود نہیں: اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی کسی معین عدد میں محصور نہیں ہیں، اس کی دلیل یہ صحیح حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: ((اَللّٰھُمَّ إِنِّی عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِیَتِی بِیَدِكَ، مَاضٍ فِیَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَكَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَہٗ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَہٗ فِی كِتَابِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَكَ))
Flag Counter