Maktaba Wahhabi

241 - 315
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی پر توکل نہیں کرنا چاہیے توکل کے لغوی معنی کسی دوسرے شخص پر کسی معاملے میں اعتماد اور بھروسا کرنے کے ہیں۔شرعی اصطلاح میں دنیا و آخرت کے معاملات میں کسی نفع یا نقصان کے بارے میں، صدق دل کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا اور اعتماد کرنا توکل کہلاتا ہے۔[1] اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسے کا مطلب یہ ہے کہ انسان شرعی حدود میں رہتے ہوئے دنیاوی اسباب کو بروئے کار لا کر کوشش کرے اور قانون الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے محنت کرے۔لیکن ان اسباب اور کاوشوں کو صرف ذریعہ سمجھے کلی اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر کرتے ہوئے انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے۔اسباب کو بروئے کار لائے بغیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہرگز توکل نہیں۔اسی طرح اعمال کے بغیر جنت کا طلب گار ہونا بھی توکل نہیں اور نہ صرف اعمال پر بھروسا کرنا ہی جائز ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول!کیا میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اس کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ)) ’’پہلے گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔‘‘[2] توکل کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسباب خواہ معمولی ہی ہوں انھیں ضرور اختیار کرنا چاہیے۔سیدنا ایوب علیہ السلام نے اپنے مرض میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ ﴾’’اپنا پاؤں زمین پر مارو۔‘‘ اس سے پانی نکلے گا۔سوال یہ ہے کہ کیا زمین پر پاؤں مارنے سے پانی نکلتا ہے؟ ہرگز نہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا کہ اسباب خواہ کمزور اور معمولی بھی ہوں انھیں اختیار کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ اسباب کا محتاج نہیں لیکن بندہ اسباب اختیار کرنے کا پابند ہے۔
Flag Counter