Maktaba Wahhabi

211 - 315
اپنی حاجت عرض کرے جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی: ﴿رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ﴾ ’’اے میرے پروردگار!بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘[1] انھوں نے اپنے حال کا ذکر کر کے اسے بطور وسیلہ پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کا نزول فرما دے۔سیدنا زکریا علیہ السلام کی یہ دعا بھی اسی اسلوب میں ہے: ﴿رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴾ ’’اے میرے پروردگار!میری ہڈیاں (بڑھاپے کے سبب) کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے (کی سفیدی) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار!میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘[2] وسیلے کی یہ تمام قسمیں جائز ہیں کیونکہ حصول مقصود کے لیے ان میں جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، وہ سب صحیح ہیں۔ 7 نیک آدمی سے دعا کرانے کا وسیلہ: اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں کسی ایسے نیک آدمی کی دعا کرانے کا وسیلہ اختیار کیا جائے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اور خاص ہر قسم کی دعا کے لیے درخواست کرتے تھے جیسا کہ صحیحین میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ ایک شخص جمعے کے دن اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔اس نے عرض کی: اللہ کے رسول!مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ اٹھا دیے اور یہ دعا کی: ((اَللّٰھُمَّ!أَغِثْنَا)) ’’اے اللہ!ہمیں بارش عطا فرما۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا تین بار فرمائی اور جب آپ خطبہ مکمل فرمانے کے بعد منبر سے اترے تو آپ کی ڈاڑھی مبارک سے بارش کے قطرے ٹپک رہے تھے، پھر پورا ایک ہفتہ لگاتار بارش ہوتی رہی، پھر دوسرےجمعے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو اُسی شخص نے یا کسی اور نے عرض کی: اللہ کے رسول!
Flag Counter