نجومیوں اور غیب کے دعوے داروں کی باتوں کو صحیح سمجھنا کفر ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت نجومیوں اور غیب کے دعویداروں کا پیشہ عروج پر تھا۔دراصل نزول قرآن سے پہلے شیاطین جن، ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر آسمانوں کی طرف جاتے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے جو احکام الٰہی کے بارے میں گفتگو کررہے ہوتے اس میں سے کوئی بات چوری کر کے اپنے چیلوں کو بتا دیتے جو اس میں سو جھوٹ ملا کر پیش گوئیاں جاری کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے۔بعض وہ باتیں جو جنوں نے آسمانوں سے سنی ہوتی تھیں وہ تو درست ثابت ہوتیں، اس لیے لوگ ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔نزول قرآن کے ساتھ ہی ان جنوں پر پابندی لگا دی گئی اور انھیں شہاب ثاقب پڑنے لگے تو ان کا دھندا ٹھنڈا پڑ گیا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے مقابلے میں غیب دانی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نے اسے حرام قرار دے کر اپنے ماننے والوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا۔
یاد رہے کہ علم نجوم سے ستاروں کا وہ علم مراد نہیں ہے جو سائنس سے متعلق ہے بلکہ وہ علم مراد ہے جس میں اس بات کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان ستاروں کے انسانی زندگی پر اثرات ہوتے ہیں، چنانچہ آج بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں کو خوشی ملی کیونکہ اس کا ستارہ عروج پر ہے فلاں کو مصیبت ملی کیونکہ اس کا ستارہ گردش میں ہے۔جبکہ دور جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ستاروں کے طلوع و غروب پر زمین میں کوئی نہ کوئی خاص واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔
بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَیْئٍ فَصَدَّقَہُ، لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃُ أَرْبَعِینَ یَوْمًا))
|